ٹرائیکا پاکستان کو سکون کا سانس نہیں لینے دیگا
بھارت کے اس بیان کو خوش آئند سمجھ کر زیادہ اُچھلنے اور دُودھ ابالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جونہی بھارت کی طرف سے ذرا سی نرمی دکھائی گئی اور پاکستان کی ممتا پھڑک اٹھی۔ بھارت نے انتہائی ڈپلومیٹک چال چلی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کی مخالفت نہیں کرینگے۔ اس بیان سے یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ بھارت پاکستان کی مخالفت یا مخاصمت نہیں کرتا۔ گویا اب پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کی ممبرشپ پر معترض نہ ہو بلکہ تائید و حمایت کرے تاکہ چین کی طرف سے بھی مخالفت ختم ہو جائے اور بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کر لے۔ جہاں تک پاکستان کے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شرکت کا تعلق تو اسکے فی الحال دُور دُور تک آثار نہیں۔ پاکستان میں اپنوں کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل اتنا شدید ہے کہ بندہ ہر سطح پر اپنا دفاع کرتے کرتے رہ جاتا ہے۔ اپنے بچاؤ میں اتنا وقت اور توانائی لگ جاتی ہے کہ دوسری طرف ذہن کا مرتکز ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہاں حکومت اور اپوزیشن باہم دست و گریبان رہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ذاتی لڑائیاں چلتی ہیں۔ عوامی ایشوز پر تو شاید ہی بات ہوتی ہے۔ زیادہ وقت ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے، پگڑیاں اچھالنے اور الزامات تراشنے میں خرچ ہوتا ہے۔ اسکے بعد ہم مسلسل ابتداء سے تادم تحریر ایک ٹرائیکا کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے ہمیں ایک لمحہ کچھ سوچنے یا کرنے کو نہیں ملتا۔ آپ سمجھیں گے کہ یہ ٹرائیکا برطانیہ امریکہ اسرائیل پر مشتمل ممالک کا ٹولہ ہے۔ جی نہیں یہ امریکہ بھارت اور افغانستان پر مشتمل ٹرائیکا ہے۔ اسرائیل سے ہمارا کبھی براہ راست ٹکراؤ نہیں ہوا۔ برطانیہ دخل در معقولات کا اتنا قائل نہیں رہا۔ البتہ امریکہ کے سر میں نجانے کیا سودا سمایا ہوا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ پینٹاگون میں امریکہ کا سی ٹی سکین کرانا چاہیے کہ آخر امریکہ کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔ اس نے مسلم دنیا کو ٹارگٹ کیوں کر رکھا ہے۔ غور کیجئے کہ ایران، عراق، شام، فلسطین، لیبیا، یمن، افغانستان اور اب پاکستان، مصر، ترکی، سعودی عرب، اردن، سپین اور ملائشیا امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ اس وقت پاکستان پر امریکہ کا سارا فوکس ہے۔ روس کو مسمار کرنے کیلئے دیدہ و دانستہ پاکستان کو ملوث کیا۔ پاکستان سفارتی سطح پر ہمیشہ اپنی کرپشن، اقربا پروری، رشوت اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے پسپائی اور ہزیمت کا شکار رہا ہے۔ ہمارے سفیر وہ لوگ بنے ہیں جنہوں نے صرف اپنے بنک بیلنس بڑھائے اور اپنے ذاتی نوعیت کے تعلقات بڑھائے۔ دنیا میں سب سے گندی سفارتکاری پاکستان کی ہے۔ آپ اسلام آباد میں چلے جائیں یا امریکہ انگلینڈ کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس چلے جائیں۔ آپکو وہاں ایسی سفارتکاری ملے گی کہ آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائینگے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر سفارتکار سفارشوں، خوشامدوں اور اقربا پروری کی بنیاد پر مقرر کئے جاتے ہیں۔ کسی کی تعلیم تجربہ اخلاق اور صفات یا میرٹ کو سامنے رکھ کر فیصلے نہیں کیے جاتے۔ اسکی زندہ مثال ہے اور ہماری سفارتکاری ایسی اندھی مثالوں سے اٹی پڑی ہے۔بہرحال اس وقت پاکستان اپنی ناکام سفارتکاری کے علاوہ امریکہ، بھارت اور افغانستان پر مشتمل ٹرائیکا سے نبردآزما ہے۔ امریکہ کی چالاکیوں کی وجہ سے آج ہماری افواج پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے بجائے دہشت گردوں سے جنگ کر رہی ہیں۔ یہ دہشتگرد بھی کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ پاکستانی ہیں جنہیں حرف عام میں انتہاپسند کہا جاتا ہے۔ روزانہ درجنوں فوجی، رینجرز، دہشت گرد اس جنگ میں ختم ہو رہے ہیں۔ اسلحہ اور پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ املاکیں تباہ ہو رہی ہیں لیکن امن سکون پھر بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی بھارتی ایرانی افغانی سرحدیں محفوظ کیوں نہیں ہیں۔ وہاں چیک پوسٹیں موثر اور منظم کیوں نہیں ہیں۔ سرحدوں کا تعین اور باڑیں دیواریں کیوں نہیں بنائی گئی ہیں۔ بھارتی سرحدوں پر بھی حدبندی نہیں ہے۔ نہ موثر باڑیں اور دیواریں ہیں نہ مناسب گیٹ ہیں۔ بھارت ہر ہفتے دو ہفتے بعد سرحد سے بمباری اور شلینگ کرتا ہے جس سے نہتے، بے قصور اور معصوم پاکستانی شہید ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف افغانی سرحدیں ہیں جن کی نہ حدبندی ہے نہ وہاں پر گیٹ تعمیر کیے گئے ہیں۔ روزانہ سینکڑوں افغانی پاکستان میں آسانی سے گھس آتے ہیں اور تخریب کاری کرتے ہیں۔ بھارت کیلئے بھی افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہونا بہت آسان ٹارگٹ ہے۔ ہر تخریب کاری یہیں سے جنم لیتی ہے۔ اسکے علاوہ ایران سے بھی بھارتی پاکستان میں داخل ہو کر دہشتگردی کرتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے بے شمار تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت اور اقرارنامے کے باوجود وہ پاکستان کا سرکاری مہمان ہے۔ ابھی تک اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ وہ ’’خصوصی مہمان‘‘ کے طور پر رہ رہا ہے۔ کل کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح اسے وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر روانہ کر دیا جائیگا اور ہم حسب معمول دیکھتے رہ جائینگے۔ 68 سالوں کے بعد بھی ہماری سفارت کاری، حکومتی اقدامات، معاشی اہداف، معاشرتی اقدار، تعلیمی معیار، سیاست، جمہوریت، صحافت، قانون، زراعت، صنعت و حرفت غرض ہر چیز میں افلاس، ناکامی، پسپائی اور ہزیمت ہے۔ افغانستان کی طرف سے مسلسل ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ ایک پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہو کر بھی افغانستان نے ہر بار ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔ 1946ء سے لیکر 2016ء کے 70 سالہ تعلقات اٹھا کر دیکھ لیں۔ افغانستان نے پاکستانیوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا ہے۔ ہر احسان کے بدلے نقصان پہنچایا ہے۔ ہر موقع پر زک پہنچائی ہے پھر بھی پاکستان افغانیوں کو بے دخل نہیں کرتا۔ 35 لاکھ سے زائد افغانیوں کو چھاتیوں پر مونگ دلنے کیلئے چھوڑا ہوا ہے جنہوں نے پاکستان کی معیشت اور معاشرت دونوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ 35 لاکھ تو رجسٹرڈ ہیں اور پچاس لاکھ کے قریب غیرقانونی طور پر موجود ہیں۔ آخر پاکستان ان افغانیوں کو ملک بدر کیوں نہیں کرتا بلکہ حال ہی میں طورخم سرحد بھی کھول دی ہے جبکہ افغانستان نے یہاں دو دن پہلے اتنا ہنگامہ اور فساد برپا کر رکھا تھا۔ ٹرائیکا کے ہوتے پاکستان کو آزادی، سکھ اور سکون کا سانس نہیں آ سکتا۔ ویسے بھی جیسی ہماری مفاد پرست حکومت، خود غرض اپوزیشن اور بے حس عوام ہے۔ ایسے میں بھلا کیا ہو سکتا ہے ایک آہ سرد کے سوا۔