’’ماہِ صیام اور ہم‘‘ ایک بار پھر آمنے سامنے
قارئین ایسا محسوس ہوتا ہے لمحہِ موجود میں سالوں، مہینوں، ہفتوں اور دنوں کی گنتی اور کارکردگی یکساں ہو گئی ہے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ یہ ابھی پچھلے بابرکت روزوں کا اختتام اور ہلالِ عید کی دید محض چند دنوں ہی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ سو بسم اللہ ماہِ صیام پھر نصیب ہوا ہے۔ گویا مسلمانوں کو ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے پورا ایک ماہ اپنی رحمتوں سے سیراب و فیضاب ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے اور ان پر اپنی برکتوں کی انتہا کی ابتدا کیا چاہتا ہے لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا روزہ محض کلام و دشنام کی پابندی اور طعام سے فاقے کا ہی نام ہے یا ہر قسم کی بدی، برائی اور بدنیتی سے افاقے کا نام ہے؟ اس حقیقت کو جانچنے اور روزے کی اصل روح کو سمجھنے کیلئے ہمیں ذرا گہرائی میں جا کر سوچنا پڑیگا۔ دراصل روزہ بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ اور اسکے بندے کے درمیان ایک خاموش پاکیزہ سمجھوتے کا نام ہے جس میں کسی دوسرے ضمانتی کی ضرورت نہیں ہوتی وہ پورا ایک ماہ تنہائی میں بھی ایک قطرہ تک پانی پینے کا روادار نہیں ہوتا، گناہوں سے تائب رہتا ہے، جھوٹ نہیں بولتا، فسق و فجور سے دور رہتا ہے۔ کتاب اول و آخر کے مطالعے میں مصروف رہتا ہے محض یہ سوچ کر کہ نگران کامل اسے دیکھ رہا ہے، اسے سن رہا ہے، اسے پرکھ رہا ہے لیکن اس کی کوتاہ اندیشی کی انتہا اس وقت ہو جاتی ہے جب وہ خود کو گیارہ ماہ کی بدی برائی کیلئے چھوٹ دینے کی خاطر یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کا حق تعالیٰ سے معاہدہ محض ایک ماہ کیلئے تھا اور اب وہ کچھ بھی کرنے کیلئے آزاد خود مختار ہے شراب پی کر بھی، جھوٹ بول کر بھی اور گناہ کبیرہ کرکے بھی۔ وہ اس مان و گمان میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ خدا اسے نہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ بھول جاتا ہے کہ قادرِمطلق تو پل پل یکساں ناظر و حاضر ہے اور اسکی کوئی بھی صفت نعوذ باللہ لمحاتی یا ماہانہ یا سالانہ نہیں ہے وہ اول و آخر دائم و قائم ہے اور یہ کہ طہارت روح و بدن کا جو معاہدہ روزہ دار اور اسکے درمیان طے ہوا تھا وہ سال بھر بلکہ عمر بھر کیلئے تھا اگر روزہ دار ایسا نہیں سمجھتا تو پھر سوچ لے کہ نگرانِ کامل کے ساتھ اس کا ایک ماہ یا کچھ دنوں کا معاہدہ بھی بیکار ہے بلکہ اسکے احکامات کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ آئیے مختصراً دیکھتے ہیں کہ روزے کے خصائص کیا ہیں؟
٭ روزہ جسمانی صحت اور روحانی بالیدگی کی ضمانت ہے۔٭ روزہ روزہ دار کے صبر کی زکوٰۃ ہے۔ ٭ روزہ کچھ گھنٹوں کیلئے شدید ترین جبر ذات ہے۔ ٭روزہ جسمانی طاقت کے بل پر نہیں قوتِ ایمانی کے زور پر رکھا جاتا ہے جس کی اکمل ترین مثال درخیبر اکھاڑ پھینکنے والے حضرت علیؓ ہیں جو نانِ جویں کھا کر اور سادہ پانی پی کر روزہ رکھتے اور کھولتے تھے اور جن سے یہ دو کام شائد اس مصلحت کے تحت لئے گئے تاکہ آنیوالے وقت میں روزے کی تاریخ میں جسمانی اور روحانی طاقت کے عمل کی الگ الگ تعریف و تخصیص محفوظ رہ سکے۔٭ روزہ اپنے نفس کے خلاف خاموش جہاد ہے۔٭ روزہ انسان کے مطالبات و خواہشات کا شعوری طور پر زور توڑ دینے کا نام ہے۔٭ روزہ اپنے نفس کو نکیل ڈالنے کا عمل ہے۔٭ روزہ امراء کیلئے فاقہ زدوں کی ناقابل برداشت فاقہ زدگی کا احساس کرنے کیلئے تدریجی عمل ہے۔٭ یہ روزہ دار کی طبیعت میں نرمی اور حلم پیدا کرتا ہے اس میں گرجنے گونجنے کا عمل سہم جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہی عاجزی پسند ہے۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ روزے کی بنیاد قطعی طور پر صرف ضبط نفس اور تقویٰ پر ہے حق تعالیٰ کو ہم مٹی کے بوٹوں کا حساب کتاب لینے کیلئے بھوک ہڑتال یا قعدوں کی جانچ پڑتال کی ہرگز ضرورت نہیں ہے نہ ہی اسکے نزدیک اس بات کی کوئی وقعت ہے کہ ہمارے فانی و بے معنی اجسام نے اپنے ارتقاء و بقاء کیلئے کیا کچھ کھایا پیا ہے؟ سو طے ہوا کہ روزہ خوراک سے محض منہ کی بندش ہی کا نام نہیں ہے بلکہ ہماری ریاضت، عبادت، تقوے اور روحانی طہارت کا نام ہے۔ ماہ صیام آ گیا ہے اس کو خلوص دل سے خوش آمدید کہئے ہم نے جو حقائق لکھے ہیں ان کو ضرور ذہن میں رکھئے ایک بار پھر ہم ماہِ صیام کے آمنے سامنے ہیں اسکی برکتیں اور اسکے حوالے سے روحانی روشنیاں سمیٹنے کیلئے ہمیں انتہائی ایمانداری سے تیار ہو جانا چاہئے۔