گرم سیاست گرم موسم
رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور گرمی اپنے جوبن پر۔ پاکستانیوں کی بڑی ہمت ہے کہ وہ اتنی شدید گرمی میں روزے رکھتے ہیں جبکہ انہیں لوڈشیڈنگ کا بھی سامنا ہے میرے بھائی ڈاکٹر نصیر پرتھ آسٹریلیا میں اپنا کلینک چلاتے ہیں اور کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے مسلمان تو سیدھا جنت میں جائینگے جو اتنی شدید گرمی اور بدترین لوڈشیڈنگ میں روزے رکھتے ہیں۔ رمضان اور گرمی نے سیاست کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا اور نہ ہی شہباز شریف کی سرگرمیوں کو ماند پڑنے دیا۔ انہوں نے پروٹوکول کی پروا کئے بغیر ویگن پر سفر کرنا شروع کر دیا ہے۔ قصور اور شیخوپورہ اچانک دورے کرکے لوگوں کو اپنائیت کا احساس دلایا۔ خادم اعلیٰ کو اپنے افسروں کو بھی اپنی طرح Active رکھنا چاہئے۔ افسر تو لوگوں کے کام ایک طرف اپنے دفتر میں ملتے ہی نہیں۔ انہی دنوں ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے دورے پر تشریف لائے انہوں نے اتنے سخت موسم میں پاکستان آ کر بڑی ہمت اور لوگوں کیلئے قربانی دی کیونکہ کینیڈا میں موسم بہت اچھا ہوتا ہے۔ اس دورہ میں تیسرا دھرنا دیا گیا جو کہ چند گھنٹوں تک محدود رہا اور بغیر کسی ضد کے خود ہی ختم کر دیا گیا۔ ماضی کے دو دھرنے کافی دیر اور کوششوں کے بعد ختم ہوئے تھے۔ 14 لوگوں کے قتل کا انصاف مانگنا ان کا حق ہے لیکن جب معاملات عدالتوںمیں چل رہے ہوں تو جلسوں اور دھرنوں کا دبائو نہیں ڈالا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب خود قانون کے استاد ہیں انہیں عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑنا چاہئے۔ سیاست کرنی ہے تو کریں لیکن الگ الگ۔ حکومت کی مخالفت کرنا اپوزیشن کا حق ہے اسکا راستہ دھرنا نہیں۔ رمضان اور گرم موسم نے عمران خان کو سڑک پر آنے نہیں دیا اور اپنا احتجاج عید کے بعد تک مؤخر کر دیا ہے۔ TORs کمیٹی نے رمضان کے دوران اپنے اجلاس جاری رکھے لیکن کوئی کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ گزشتہ روز اپوزیشن کے ارکان نے اپنا اجلاس منعقد کیا اور اہم فیصلے کئے جن سے لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان تو تحریک چلانے کیلئے تیار ہیں جبکہ دوسری پارٹیوں کیلئے تحریک میں حصہ نہ لینے کا چوائس ختم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعدرفیق پریس کانفرنس کرنے اور عمران خان پر شدید تنقید کے ماہر ہیں لیکن انہوں نے گزشتہ روز اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو بھی نہ چھوڑا اور حاجیوں کے فنڈز کھانے کا الزام لگا دیا۔ پیپلز پارٹی میں خورشید شاہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہر مکتبہ فکر کی طرف سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خورشید شاہ کیخلاف باتیں کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ پی پی پی حکومت کیخلاف جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے 2013ء میں حکومت میں آنے کے بعد سندھ میں آصف زرداری کو حکومت بنانے کا موقع دیا اور اپنے قد آور لیڈروں جن میں سابق چیف منسٹرز ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ لیاقت جتوئی اور دیگر کو ناراض کیا لیکن سندھ میں کوئی مداخلت نہ کی۔ اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پیار محبت ختم ہو گیا اور شدید لڑائی ہونے جا رہی ہے ۔پی پی پی کو ڈاکٹر عاصم کے خلاف مقدمات اور ویڈیوز جاری ہونے پر بھی شدید اعتراضات ہیں۔ پی پی پی حکومت کو اس سارے معاملے کی ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے انکشافات نے بڑے بڑوں کا بھرم کھول دیا۔ دبئی میں آصف زرداری کے معاملات ڈاکٹر غنی اور ایک بینکر غفور دیکھتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے معاملات فاروق نائیک بڑے پارسا بنتے ہیں اپنے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے وکیلوں کو نوکریوں سے نکالتے رہے اور آج سپریم کورٹ بار کے صدر کے امیدوار بن بیٹھے ہیں۔ کتنے عہدوں کا لالچ ہے کہ ایک شخص جو وزیر قانون رہا ہو اور قائم مقام صدر رہا ہو تو اب وہ وکیلوں کا لیڈر بننا چاہتا ہے مجھے یقین ہے کہ وکلاء ان کو ضرور مایوس کرینگے اور دیگر دیکھتے ہیں امریکہ کے معاملات۔ ایک سیکریٹری اور سندھ زمینوں کے معاملات حسن علی جبکہ شاہ نواز جونیجو ایک خاص آدمی ہے۔ اس قسم کی ویڈیوآنے کے بعد پیپلز پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آصف زرداری چالیس چالیں چلنے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے حکومت کرنے کیلئے پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا تھا تو وہ آج بھی معاملات طے کرکے نوازشریف کیخلاف چلنے والی تحریک سے بیک آئوٹ کر سکتے ہیں۔ سوال تحریک سے پیچھے ہٹنے یا آگے جانے کا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملات کو حل کیا جائے۔ حکومت کو TORs پر لچک دکھانی چاہئے۔ اس طرح اپوزیشن کو معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ویسے تو بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری روایات کا احساس نہیں۔ الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہے لیکن تقرری کیلئے وقت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی کمیٹی بنائی جس کا چیئرمین پرویز رشید کو بنایا گیا جو کہ وزیراعظم سے ملنے لندن چلے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن مکمل نہ ہونے کی وجہ سے سندھ بلدیاتی انتخابات ملتوی کردئیے گئے ہیں۔ پنجاب میں بلدیاتی سربراہوں کا انتخاب نہیں ہو رہا۔ لاہور شہر اپنے لارڈ میئر خواجہ حسان سے محروم ہے۔ اس طرح قومی اسمبلی کی جہلم میں خالی ہونے والی نشست کا الیکشن ملتوی ہو چکا ہے۔ معروف اینکر پرسن چوہدری فوادحسین نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ٹکٹ حاصل کرکے الیکشن مہم شروع کی تھی لیکن انکی بولتی بند ہو گئی ہے۔ بولنے کیلئے تو انہوں نے ٹی وی جوائن نہیں کیا تھا اب انہوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔
19 جون کو ’’فادرڈے‘‘ دنیا بھر میں منایا گیا۔ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے اپنے باپ کیلئے اچھے اچھے پیغامات بھیجے۔ میرے بچوں سائرہ خان، عمیر احمد خان، رانا وحید اختر، رائمہ خان، مریم خان، موسیٰ اور عمیزہ خان نے کیک کاٹا۔ میرے بھائی شہزاد احمد خان نے مرحوم والد صاحب کیلئے فیس بُک پر بہت اچھا لکھا لیکن اس دفعہ مجھے میاں شہباز شریف کا Tweet بہت اچھا لگا انہوں نے اپنے والد مرحوم میاں محمد شریف کیلئے لکھا۔
Miss you haji, every moment & every day of my life. My first inspiration guide & Mentor. God Blass You.
اللہ تعالیٰ سب کو اپنے والدین کے نقش قدم پر چلائے۔