قرضے بوجھ نہیں ان سے ترقی ہوتی ہے : وزیر خزانہ کا پنجاب اسمبلی میں خطاب
لاہور(خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار/خبرنگار / کامرس رپورٹر/ سپورٹس رپورٹر) صوبائی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کےلئے پیش کیا جانے والا بجٹ بیورو کریسی کا نہیں بلکہ پری بجٹ سیشن میں ارکان اور دیگر اہم سٹیک ہولڈرز کی سامنے آنے والی تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اخراجات اور آمدن میں توازن ہے، بجٹ میں کوئی نئے ٹیکسز تجویز نہیں کئے گئے بلکہ لیکجز کو روک کر ریکوری کی استعداد میں مزید اضافہ کیا گیا ہے، ایکسپورٹ پر .9 0 فیصد ٹیکس کی بات قطعاً درست نہیں بلکہ یہ امپورٹ پر ہے۔ بیرونی قرضوںکا صوبے پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ ان قرضوں کے ذریعے معاشی ترقی ہوتی ہے اور یہ اقدام قانونی پریکٹس ہے، رواں مالی سال کے دوران کئی شعبوں کے بجٹ کے کم استعمال کے اعدادوشمار درست نہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے 20161-17ءکے بجٹ پر عام بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں قائد حزب اختلاف سے متفق نہیں ہوں کہ بجٹ خسارے کا ہے۔ اس بجٹ میں آمدن اور اخراجات دونوں کا تخمینہ ایک کھرب 681 ارب روپے ہے۔ قائد حزب اختلاف نے حکومت کی ٹیکس پالیسی کے بارے میں بھی جو باتیں کی ہیں وہ حقائق کے برعکس ہیں ۔ میں ان سے درخواست کروں گی کہ وہ اس سلسلے میں اپنی معلومات درست کر لیں۔ یہ بے بنیاد دعویٰ کیا کہ حکومت نے بجٹ میں 185ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیئے۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ حکومت نے 0.9فیصد کے حساب سے ایکسورٹ پر ٹیکس لگا دیا ہے جس سے ایکسپورٹ تباہ ہو گئی ہیں۔ میں انہیں یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے قانون میں میں ایکسپورٹ کو ٹیکس سے مکمل چھوٹ حاصل ہے۔ یہ ٹیکس صرف امپورٹ پر لگتا ہے لہٰذا اس سے ایکسپورٹ کے گرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں قائد حزب اختلاف کے اس دعویٰ کو بھی مسترد کرتی ہوں کہ 2008ءمیں جب مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی تو اس وقت صوبہ 402ارب روپے سرپلس تھا۔ یہ حقائق کے بالکل منافی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مالی سال 2007-8کے اختتام پر صوبہ پنجاب کا قرضہ 305ارب روپے تھا جو کہ پنجاب کے جی آر پی کا تقریباً5.3فیصد تھا۔ جبکہ 2015-16کے اختتام پر قرضہ صوبے کے جی آر پی کا صرف 3.3فیصد ہے۔ اس طرح حقیقی اعتبار سے پنجاب کا قرضہ پہلے سے کافی کم ہو چکا ہے۔ شعبہ زراعت کے بارے میں بھی قائد حزب اختلاف اور دیگر ممبران صوبائی اسمبلی نے تفصیل سے بات کی ہے۔ جس میں زرعی لوازمات پر ٹیکسز ختم کرنے، کسانوں کو قرضوں کی فراہمی اور سبسڈی دینے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ مجھے انتہائی خوشی ہے کہ خادم اعلیٰ کسان پیکج انہی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔ قائد حزب اختلاف نے بھارت کی مثال دی کہ وہاں چار فیصد مارک اپ پر کسانوں کو قرضے فراہم کئے جاتے ہیں۔ میں بتانا چاہتی ہوں کہ اس سو ارب روپے کے قرضوں پر کسانوں کو کوئی مارک اپ نہیں دینا پڑے گا کیونکہ یہ تمام ذمہ داری حکومت نے اپنے کندھوں پر اٹھا لی ہے۔ مشینری پر بھی حکومت نے جی ایس ٹی سترہ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دیا ہے۔ میں اس غلط فہمی کوبھی دور کرنا چاہتی ہوں کہ حکومت حکومت نے پانچ ہزار سرکاری سکولوں کو پرائےوٹائز کردےا ہے۔ مےں اےک مرتبہ پھر واضح کردوں کہ حکومت پنجاب سکولوں مےں معیاری تعلیم کو ےقےنی بنانے کےلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ جن پانچ ہزار سکولوں کو پرائےوٹائزےشن کا ذکر کےا جارہا ہے حقےقت مےں ان کی صرف مےنجمنٹ کو آﺅٹ سورس کےا جائےگا اور اس کا بنےادی مقصد ان سکولوں مےں کوالٹی اےجوکےشن کو ےقےنی بنانا ہے۔ مجھے امےد ہے کہ حکومت کے اس منصوبے سے دور رس نتائج حاصل ہوں گے۔ صحت کا شعبہ بھی حکو مت پنجاب کی اہم ترےن ترجےحات مےں سے اےک ہے۔ یہ کہا گیا کہ اس شعبے میں بجٹ کا استعمال صرف 36چھتےس فےصد رہا جو حقےقت سے کوسوں دور ہے۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ مےں صحت کے ترقےاتی پروگرام کے لئے 20ارب 11کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی۔ محکمہ صحت نے موجوہ مالی سال مےں 30ارب تےس کروڑ روپے استعمال کئے جو کہ مختص کردہ وسائل سے 51فےصد زےادہ ہے۔ کچھ ممبران اسمبلی نے سوال کےا ہے کہ قائد اعظم سولر پارک کو پرائےوٹائز کےوں کےا جارہاہے ۔ اس ضمن مےں گزارش ہے کہ حکومت کا مقصد زےادہ سے زےادہ بجلی کرناہے ۔ قائد اعظم سولر پارک منصوبہ کا مقصد پرائےوےٹ سےکٹر کےلئے سولر منصوبوں کی ترغیب دےنا تھا۔ اپوزیشن نے اورنج لائن منصوبہ کو شدےد تنقےد کانشانہ بناےا ۔ مےں اےک مرتبہ پھر یہ واضح کرددوں کہ یہ منصوبہ لاہور رےپڈ ماس ٹرانزےڈ سسٹم کا حصہ ہے مجھے فخر ہے کہ غرےب عوام کو معےاری اور انوائر منٹ فرےنڈلی ٹرانسپورٹ کی فراہمی شرف اللہ تعالیٰ نے موجودہ حکومت کو عطا کےا ہے اس منصوبے سے لاہور مےں روزانہ پانچ لاکھ لوگ مستفےد ہوںگے ۔ اس منصوبے کو صرف لاہور کا منصوبہ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ پنجاب اور پاکستان کا منصوبہ ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ حکومت پنجاب کو اس منصوبے کے آپرےشنز کو بھی سبسڈائزڈ کرنا پڑے گا لےکن کیایہ سبسڈی دنےا کے دوسرے ممالک مےں نہےں دی جاتی۔علاوہ ازیں بجٹ پر بحث کے دوران بغیر اجازت مسلسل بولنے پر سپیکر نے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی وحید گل کو 10منٹ کیلئے ایوان سے نکال دیا۔ وحید گل نے سپیکر سے بولنے کی اجازت مانگی تھی۔ انکار پر انہوں نے ماڈل قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کی سوشل میڈیا اور نجی ٹیلی ویژن پر ویڈیوکے حوالے سے بات کرنا شروع کر دی۔ سپیکر کے روکنے کے باوجود وحید گل بلند آواز میں بولتے رہے۔ پہلے سرکاری رکن پیر اشرف رسول کی نشست پر رک کر ان سے گفتگو شروع کر دی جس پر سپیکر نے انہیں پھر ایوان سے باہر نکالنے کی ہدایت دی اور وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔ وحید گل کے باہر نکالے جانے کے بعد سرکاری رکن عبدالرزاق ڈھلوں کھڑے ہو گئے اور کہا کہ قندیل بلوچ نے مفتی عبدالقوی کو ٹوپی پہنا دی ہے۔ مفتی عبدالقوی پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں جس پر سپیکر نے انہیں بولنے سے روک دیا اور ہدایت کی کہ خاموش رہیں۔ وحید گل 10 منٹ کی بجائے 20 منٹ بعد ایوان میں داخل ہوئے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر سپیکر کو گھڑی دکھائی تو سپیکر نے داخلے کی اجازت دیدی۔ میاں اسلم اقبال کی جانب سے لاہور کے ٹاﺅنز میں حکومتی ایم پی ایز اور انکے رشتہ داروں کی کرپشن میں مجلوث ہونے کا الزام عائد کیا تو حکومتی جماعت کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز نے میاں اسلم اقبال کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ وہ کلمہ پڑھ کر قسم کھائیں کہ آپ اپنے دور حکومت میں کیا کرتے رہے ہیں۔ میاں اسلم اقبال کی جانب سے مسلم لیگ کے قائدین اور ارکان اسمبلی کو کرپٹ قرار دیا جس پر حکومتی ارکان نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا تاہم ڈپٹی سپیکر اسمبلی نے میاں اسلم اقبال کے الفاظ کو اسمبلی کارروائی سے حذف کرنے کے احکامات دیئے۔ مسلم لیگ کے رکن اسمبلی ماجد ظہور نے کھڑے ہو کر کلمہ پڑھا اور کہا کہ اسلم اقبال ان کے کسی ٹاﺅن میں کمشن یا ٹھیکوں میں ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کر دیں الحمدللہ کبھی ایسا نہیں کیا۔ میاں اسلم اقبال کلمہ پڑھ کر قسم کھائیں کہ اپنے دور میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں ترامیم پنجاب اسمبلی میں پیش کر دی ہیں۔ وزیر خزانہ نے بجٹ پر بحث سمیٹتے خطاب کے بعد ایوان میں ترامیم پیش کیں۔ قندیل بلوچ کیخلاف قانونی کارروائی کیلئے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں مذمتی قرارداد جمع کرادی گئی۔ قرارداد فیصل آباد سے حکومتی رکن میاں طاہر جمیل کی جانب سے سے جمع کرائی گئی ہے۔اجلاس میں وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا 3 گھنٹے اور 18 منٹ قائد حزب اختلاف محمودالرشید نے صرف 59 منٹ شرکت کی۔
پنجاب اسمبلی