قندیل کی روشنی میں عید کے چاند سے پہلے چاند
مفتی عبدالقوی اور قندیل بلوچ کی ملاقات اور ”گل بات“ کا آج کل بڑا چرچا ہو رہا ہے۔ دونوں تائید بھی کر رہے ہیں اور تردید بھی کر رہے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بلایا۔ بہرحال دونوں 12 بجے دن سے پانچ بجے تک ایک دوسرے کے پاس رہے بلکہ ساتھ رہے۔
اداکارائیں، ماڈلز اور فنکارائیں دوستوں اور دوسروں سے ملتی ہی رہتی ہیں۔ مفتی صاحب بھی یہ نیک کام کرتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ خبروں کا موضوع بنے رہے ہیں۔ یہ کام مفتی اور عالم دین کریں تو حیرت ہوتی ہے خوشگوار حیرت۔ خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے شاعر ادیب خوبصورت لوگوں سے ملیں تو پہلے مفتیان اور مولوی صاحبان کو بہت اعتراض ہوتا تھا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر علماءکرام اور مفتی صاحبان خاتون اینکر کے ساتھ بہت بے تکلفانہ میٹھی اور دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ وہ پوری طرح انوالو ہوتے ہیں جس کا اردو ترجمہ مبتلا ہونا اور ملوث ہونا ہے۔
اس سے پہلے ایک گفتگو میں رویت ہلال کمیٹی کے ممبر مذہبی سکالر عالم دین مفتی عبدالقوی نے بہت خوبصورت باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ ائرپورٹ پر جہاز کی پرواز میں دیر ہو تو میں ائرپورٹ پر خوبصورت عورتیں تلاش کرتا ہوں۔ حدیث رسول انہوں نے بیان کی۔ خوبصورت چہرہ نظر آئے تو اس سے کہو کہ میرے لئے دعا کرو۔ وہ جہاز کے اندر جا کے بھی دیکھتے ہیں کہ کون سی ائرہوسٹس زیادہ خوبصورت ہے۔ آج کل پی آئی اے والے خوبصورت ائرہوسٹس نہیں رکھتے۔ اس لئے مفتی صاحب اکثر مایوس ہوتے ہیں۔ مگر میں مفتی صاحب کی خدمت میں عرض کروں کہ کسی عورت کو بدصورت کہنا گناہ ہے۔ اس گناہ کی سزا کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی کو کم صورت کہا جا سکتا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کوئی عورت بدصورت نہیں ہوتی؟
مفتی صاحب نے ملتان ائرپورٹ پر ایک عورت سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا دل کہتا ہے آپ میرا کام کر دیں گی۔ نجانے مفتی صاحب کو اس خاتون سے کیا کام تھا؟ مفتی صاحب نے قندیل سے پوچھا کہ آپ روزے سے ہیں۔ اس نے کہا کہ نہیں میں روزے سے نہیں ہوں۔ تو مفتی صاحب نے بڑے رومانٹک لہجے میں کہا کہ میں نے بھی آج آپ کی محبت میں روزہ نہیں رکھا۔ اب میں اس پر کیا تبصرہ کروں کہ مفتی صاحبان ناراض ہو جائیں گے ورنہ لوگ ناراض ہو جائیں گے۔ وہ قندیل بلوچ کے ساتھ بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے اور قندیل ان کے ساتھ صوفے کے بازو پر بیٹھی تھی۔ اس نے مفتی صاحب کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ یہ ایک مقبول فیشن بن جائے گا۔ قندیل نے مفتی صاحب کی عینک بھی پہن لی تھی۔ قندیل کی نظر کمزور ہو سکتی ہے مگر شاید دونوں کی عینک کا نمبر ایک ہی ہو ۔ بہرحال وہ عینک اور ٹوپی میں زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
مفتی صاحب کا یہ جملہ بھی بہت اہم ہے انہوں نے قندیل کو فون پر کہا کہ عید کے چاند سے پہلے چاند دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس نازک موقعے پر قومی معاملات بھی مفتی صاحب کے دل میں ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر مفتی صاحب نے قندیل کو سر پر دوپٹہ لینے کو کہا مگر یہ بات انہوں نے اسے ملاقات کے دوران نہ کہی۔ قندیل بلوچ نے کہا کہ وہ تو مجھے عید کے چاند سے پہلے دیکھنا چاہتے تھے تو چاند کو پردوں میں چھپانے سے تو وہ فنا ہو جائے۔ مجھے انہوں نے بیٹی کہا ہے مگر ملاقات میں بیوی بنانے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔
قندیل بلوچ نے کہا کہ وہ اپنے جیسے کسی آدمی سے شادی کرے گی۔ میرا جیون ساتھی میرے جیسا بہادر ہو اور تنگ نظر نہ ہو۔ جب مفتی صاحب قندیل بلوچ کو یہ پیشکش کر رہے تھے تو ان کے دل میں کوئی قندیل جل رہی تھی جس کی روشنی باہر آتے ہی اندھیرے میں بدل گئی۔ مگر میڈیا شاید اندھیرے میں دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہرحال دونوں اپنی اپنی وضاحتیں بیان کر رہے ہیں۔ یہ بھی شہرت کی بات ہے اور شہرت دونوں کو چاہئے۔ ساری باتیں اضافی ہیں۔ ملاقات تو ہوئی ہے اور ملاقات میں دونوں شریک ہوئے ہیں۔ اس موقعے پر احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں۔ ان کا ایک بہت برمحل اور بامعنی شعر عرض ہے....
ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے
قندیل نے ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیار کیا جبکہ مفتی صاحب نے مدافعانہ رویہ اختیار کیا۔ قندیل نے کہا کہ مفتی صاحب مہا بے وقوف ہیں۔ مہا کسی شے کی اہمیت اور بڑائی کے لئے بولا جاتا ہے۔ جیسے لوگ گاندھی جی کو مہاتما گاندھی کہتے ہیں۔ میں قندیل کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ بے وقوف نہیں ہیں۔ مہا بے وقوف تو بالکل نہیں ہیں وہ بہت دانشمند آدمی ہیں۔ آخر قندیل ان سے ملنے کے لئے خود تشریف لے گئیں کچھ تو بات درمیان میں ہے۔ قندیل کو یہ فن تو آتا ہو گا مگر اس کا یہ کہنا کہ مفتی صاحب بے وقوف ہیں بذات خود بے وقوفی کی بات ہے۔ پورے پانچ گھنٹے کی ملاقات اتفاقی نہیں ہو سکتی۔ نہ کسی بے وقوف کے ساتھ اتنی قیمتی ملاقات ممکن ہے۔ قندیل نے مفتی صاحب کے ساتھ سلفیاں بھی بنوائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں کوئی تیسرا آدمی نہ تھا جو دونوں کی تصاویر بنا کے دے سکتا۔ بہرحال خوبصورتی ایک نعمت ہے۔ میں مفتی صاحب اور قندیل دونوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے مگر خوبصورتی کی حفاظت کرنا بھی خوبصورت لوگوں کا فرض ہے۔ خوبصورتی کی قدر کرنا ثواب ہے مگر قدر کرنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے۔
اس دوران مجھے برادرم علامہ عبدالستار عاصم نے محترم مقبول احمد کی مرتب کردہ کتاب مقبول دعائیں دی۔ مقبول اکیڈمی کا تحفہ ہے۔ یہ کتاب لوگوں میں مفت تقسیم کی جا رہی ہے یہ کتب مفتی صاحب اور قندیل دونوں پڑھیں اور پھر ملاقات کریں۔ ایک خبر بھی ملی ہے کہ رکن قومی اسمبلی وحید گل نے ایوان میں قندیل کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ خاموش نہ ہوئے تو سپیکر نے انہیں ایوان سے باہر نکال دیا۔ گزارش ہے کہ وحید گل نے مفتی عبدالقوی کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ ملاقات اگر گناہ ہے تو یہ دونوں نے کیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں ممتاز جاکھرانی نے خاتون رکن کو ماسی کہہ دیا مفتی عبدالقوی نے قندیل بلوچ کو بیٹی کہا ہے۔ وہ بہت ناراض ہوئے تو اسے ماسی بھی نہیں کہیں گے۔ ماسی قندیل بلوچ تو مفتی صاحب کو کیا کہا جائے؟ ان کے خلاف وزارت مذہبی امور نے سخت کارروائی کا ارادہ کیا ہے۔ انہیں عید کے چاند سے پہلے چاند دیکھنا مہنگا پڑ گیا ہے۔ ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں اور قندیل زیادہ روشن ہو گئی ہے۔ اس دفعہ عید ایک ہی دن سارے ملک میں ہو گی۔