دارالعلوم حقانیہ کیلئے 30 کروڑ امداد طالبان کو جواز فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں:زرداری
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرنز کے صدر اور آصف علی زرداری نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک ایسے مدرسے جو طالبان سے قربت رکھتا ہے کو 30کروڑ کی خطیر رقم دینے پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ عسکریت پسندی اور طالبان کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہ قوم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کرنا ہے۔ ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق صدر عوام کی رقم کو ایک نجی مدرسے کو دینے پر نہایت تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ مدرسہ نجی جہاد کو فروغ دینے کیلئے مشہور ہے۔ یہ تمام وسائل اور رقومات انسانی ترقی کے لئے استعمال ہونی چاہیے تھیں نہ کہ ایک ایسے مدرسے کو یہ رقم دینی چاہیے تھی جو اسلام کو جنگجویانہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ رقم اس وقت دی گئی ہے جب طالبان ہی کے ایک گروپ نے کراچی میں معروف قوال امجد صابری کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ نوشہرہ میں قائم دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ نہ صرف یہ کہ طالبان کے ہمدرد کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں بلکہ طالبان کے غیراعلانیہ ترجمان بھی ہیں۔ طالبان اور حکومت کے درمیان 2014ء میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان نے اسی مدرسے کے سربراہ کو اپنی جانب سے مذاکرات کرنے کے لئے مقرر کیا تھا۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ متعدد عسکریت پسند طالبان لیڈر اسی مدرسے کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان لیڈر ملا منصور اختر کی بلوچستان میں ہلاکت کے بعد یہ محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ گروہ دوبارہ سے جہادی پروجیکٹ کو زندہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں جہادی اور مذہبی تنظیموں نے ملا منصور کی ہلاکت پر اسلام آباد میں ایک احتجاجی جلسہ کیا تھا اور اب ایک نجی طالبان کے حمایتی مدرسے کو 30کروڑ روپے دے دئیے گئے ہیں حالانکہ نیشنل ایکش پلان کالعدم تنظیموں کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اب نہ صرف یہ سر اٹھار ہے ہیں بلکہ اپنا جہادی ایجنڈا مسلط کرنے کی کھلے عام ترغیب دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہادی پروجیکٹ کو کسی منصوبے کے تحت دوبارہ ابھارا جا رہا ہے؟