فلاحِ انسانیت صرف رمضان کریم میں ہی کیوں
برکتوں، فضیلتوں اور رحمتوں والے مقدس رمضان کریم کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے اور ہم بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر اور روزے کے ساتھ حبس آلود تلخ گرمی کو برداشت کرکے اس ایک مہینے کے دوران اپنے گناہ بخشوانے پر سارا زور لگا رہے ہیں۔ ماشاءاللہ مساجد بھی بھری ہیں۔ گھروں میں بھی خداوند کریم کی عبادت جاری ہے۔ تسبیحوں کے دانے بھی ہماری انگلیوں کی حرکت میں متحرک ہیں۔ سحری افطاری کا بھی تزک و احتشام سے اہتمام ہوتا ہے۔ در پر کوئی سوالی آ جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا جائے۔ اب ہر مسجد اور دوسرے مخصوص مقامات پر لاکھوں فرزندانِ توحید اعتکاف بیٹھے ہیں تو بندگانِ خدا کی عبادت سے فضا اور بھی مسحور اور معطر ہو گئی ہے.... یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ یہ ساری دینداری بس ایک مہینے تک ہی کیوں۔ رمضان کریم کی فضیلت اپنی جگہ کہ فطرانہ صرف اس ایک مہینے کے لئے ہی مخصوص ہے۔ زکوٰة کی ادائیگی کے لئے بھی ترجیحاً اسی مقدس مہینے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی ضرور چلتا رہے مگر ہم ہر مہینے کو رمضان مقدس کی طرح گزارنا شروع کر دیں تو ہمارے اندر اور باہر عملاً انقلاب نہ برپا ہو جائے؟ ذرا سوچئے رمضان کے مقدس مہینے میں نماز، روزہ، تسبیح سے ہم اپنے من کو کتنا مار پاتے ہیں۔ ہمارے دلوں کی کدورتیں کتنی دور ہو پاتی ہیں۔ دنیاوی لہو و لعب والی الائشوں سے بھری زندگی کے معمولات میں ہم کتنی تبدیلی لا پاتے ہیں۔ جھوٹ، منافقت، ہیراپھیری، ذہنی پراگندگی اور کاروبار میں ناجائز منافع خوری کی لت سے ہم اس ایک مقدس مہینے میں کتنی خلاصی حاصل کر پاتے ہیں۔ صلہ رحمی اور اپنے آس پڑوس کے مستحقین کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے والی نیکی کے احساس کو اپنے دلوں میں کس حد تک جاگزیں کر پاتے ہیں۔ اگر رمضان کریم میں خشوع و خضوع کے ساتھ کی گئی ساری عبادات کے باوجود صلہ رحمی کے حوالے سے ہمارے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور ہم دنیاوی آلائشوں میں اسی رح اٹے ہوئے ہیں تو رمضان کریم کے رحمت، بخشش اور نار جہنم سے نجات والے تین عشروں کا ہماری زندگیوں پر کیا اثر ہوا ہے۔
بالعموم ایسا ہوتا ہے کہ ہم رمضان مقدس کے دوران تو نیکیوں کے لبادے اوڑھ لیتے ہیں۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر و عبادات میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دیتے۔ صدقہ، خیرات میں بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر جیسے ہی اس ماہ مقدس کا اختتام ہوتا ہے، ہماری ساری قباحتیں، منافقتیں، خباثتیں پھر عود کر آتی ہیں۔ ذرا تصور کیجئے۔ اگر ہم ہر مہینے کو رمضان مقدس کی طرح گزار یں، اپنے در پر آئے کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ جانے دیں۔ آس پڑوس کے مستحقین کی خبر گیری کرتے رہیں۔ غیبت، دروغ گوئی، منافقت اور ناجائز منافع خوری کی لت کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیں تو ہمارا انسانی معاشرہ شرف انسانیت سے معمور ہو کر ایک مثالی اسلامی فلاحی معاشرے کے قالب میں نہ ڈھل جائے؟ جس میں فی الواقع کوئی دستِ سوال دراز کرنے والا نظر نہ آئے۔ رمضان مقدس کو شرف انسانیت والے ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک ٹریننگ کورس ہی سمجھ لیا جائے تو اس ماہ مقدس کے بعد بھی ہماری زندگیوں کے معاملات و معمولات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ تجربہ کرکے دیکھیں اور رمضان المبارک کے بعد بھی صدقہ خیرات اپنا معمول بنا لیں اور مخیر حضرات صرف زکوٰة، فطرانہ کے دینی فریضہ کی ادائیگی تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے اردگرد کے بے وسیلہ اور بے یارومددگار مفلس و لاچار انسانوں کی خبر گیری اپنا روزانہ کا معمول بنا لیں تو اس معاشرے میں حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث بڑھتی ہوئی غربت اور لاچاری کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔ اس وقت صرف کہنے کی حد تک نہیں، فی الواقع غربت کا عفریت ہمارے معاشرے کے مجبور و مقہور انسانوں کو سسکا، ترسا کر ایڑیاں رگڑتی زندگی گزارنے پر مجبور کر چکا ہے۔ حکمرانوں نے تو فلاحی معاشرے والی اپنی ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے سے بے نیازی کے ساتھ ہاتھ کھینچ لیا ہوا ہے اس لئے ان سے شرف انسانیت کے تقاضے نبھانے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس صورتحال میں اگر تھوڑے بہت وسائل والے اس معاشرے کے شہری صلہ رحمی کو بھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں شامل کر لیں اور خلق خدا کی بہتری اور بھلائی کے لئے خود یا کسی فلاحی تنظیم کے وسیلے سے اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیں تو خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی کو بھی شرف انسانیت سے آشنائی ہو سکتی ہے۔ برادر مکرم ڈاکٹر اجمل نیازی اس ماہ مقدس کے دوران اپنے کالموں میں ان فلاحی تنظیموں، اداروں اور مخیر حضرات کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں جو دکھی انسانیت کی خدمت کے کاموں کو مقصدِ حیات بنا چکے ہیں۔ معمولات زندگی میں سے ایسے فلاحی کاموں کے لئے وقت نکالنا بھی عبادت ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس عبادت کو بھی نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کی طرح فرضی عبادات کا حصہ بنا لے تو یقین کیجئے، ہم اپنے ہاتھوں دوزخ بنائے گئے اس معاشرے کو اپنے ہی ہاتھوں سے جنت نظیر وادی میں تبدیل کر سکتے ہیں اس کے لئے ان فلاحی اداروں کی دل کھول کر معاونت کرنا اپنا شعار بنا لیا جائے جو صرف دکھی انسانیت کی خدمت اور انسانی دکھوں کو پاٹنے کے کارخیر میں حصہ لے رہے ہیں تو خدا کی رحمت و برکت سے کل کو ہمارے معاشرے میں اتنی خوشحالی آ جائے گی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ایسے فلاحی اداروں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فی الوقت میں دو باہمت خواتین کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے اس معاشرے کے نظرانداز کئے گئے بے آسرا بچوں کو اڈاپٹ کرکے ان کی صحت، تعلیم، علاج معالجہ کی تمام ضرورتیں پوری کرنے اور معاشرے کا پرعزم شہری بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ ان میں سے ایک اسلام آباد کی مریم خاں ہیں جنہوں نے تن تنہا دنیاوی کلفتوں کا سامنا کرتے ہوئے ”نیسٹ“ کے نام سے بے آسرا بچوں کی کفالت کا بیڑہ اٹھایا جس میں ملک بھر سے یتیم اور بے آسرا بچے اور بچیاں اب تک سینکڑوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں۔ یہ ”نیسٹ“ میں آنے والے ہر بچے اور بچی کو اپنی اولاد کا درجہ دیتی ہیں اور انہیں کبھی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتیں۔ انہوں نے ”نیسٹ“ کو بغیر کسی سرکاری گرانٹ اور بغیر کسی بیرونی ڈونر ایجنسی کی معاونت کے کامیابی کے ساتھ چلا کر دکھایا ہے۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اڈاپٹ کی گئی اپنی ایک بیٹی ایمان اور بیٹے سربلند خاں سے بھی مجھے ملوایا۔ ان بچوں کا جذبہ دیکھ کر مجھے دلی راحت ہوئی۔ سربلند انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آج کوٹ ادو تھرمل پاور پلانٹ میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ مریم خاں نے اب نئے بچوں کی کفالت کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے 20 کے قریب خواتین کا ایک گروپ قائم کرکے اسلام آباد میں صرف خواتین کے لئے کیب سروس کا آغاز کیا ہے جس میں مریم خاں سمیت تمام خواتین خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتی ہیں اور صرف خواتین ہی اس سہولت سے استفادہ کر سکتی ہیں۔ اس سروس سے حاصل ہونے والی رقم وہ ”نیسٹ“ میں نئے آنے والے بچوں بچیوں کی تعلیم اور دوسری ضروریات کے لئے مختص کر رہی ہیں۔ معاشرے کے مخیر حضرات نے اس پرعزم خاتون کے جذبے کو کیسے آگے بڑھانا ہے، یہ انہی پر منحصر ہے۔ میں نے ”نیسٹ اسلام آباد“ کی نشاندہی کر دی ہے آپ وہاں جا کر خود جائزہ لیں اور خود فیصلہ کریں کہ وہاں موجود بچوں کی مزید بہتری کے لئے آپ نے کیا کرنا ہے۔ ایسا ہی ایک ادارہ فیصل آباد کی ایک باہمت خاتون غالیہ فرخ نے فیصل آباد کے پسماندہ علاقوں کے بیمار، لاچار، بے کس اور یتیم بچوں کی کفالت کے لئے فرخ فاﺅنڈیشن کے نام سے قائم کر رکھا ہے جس میں ان کی کزن عماریہ قیصر بھی ان کی معاونت کرتی ہیں۔ گزشتہ سیلاب میں متاثرہ پسماندہ علاقوں میں فرخ فاﺅنڈیشن کی جانب سے لگائے گئے طبی کیمپ بھی میرے مشاہدے میں آئے تھے۔ یہ ادارہ زیادہ تر اپاہج بچوں کا موثر علاج معالجہ کرکے انہیں معاشرے کے ذمہ دار فرد بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اب تک سینکڑوں بچوں بچیوں کا سہارا بن چکا ہے۔ غالیہ فرخ کے بقول اس وقت ساڑھے تین سو بچے ان کے ادارے میں علاج معالجہ کے لئے ویٹنگ لسٹ میں ہیں۔ معاشرے کے باوسیلہ حضرات کو اس ادارے کی معاونت کے لئے ضرور آگے بڑھنا چاہئے۔ اس ادارے کا دبئی اسلامک بنک میں بنک اکاﺅنٹ نمبر 0186065001 ہے۔ آپ اس ادارے کی ویب سائٹ
www.farrukh.foundation.org.pK
وزٹ کرکے اس کی تعمیری سرگرمیوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے فلاحی کاموں کو صرف رمضان کریم تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ ہر لمحہ، ہر دن، ہر مہینہ فلاح انسانیت کا کام جاری رہے تو ہمارے ہاتھوں ایک صحت مند انسانی معاشرے کی تشکیل و تعمیر یقینی ہو جائے گی۔