• news

القاعدہ نے ایمن الظواہری کی رشتہ دار خواتین کی رہائی کے لئے مجھے اغوا کیا: علی گیلانی

کراچی (آن لائن+ اے پی پی+ بی بی سی) سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے گذشتہ ماہ افغانستان سے بازیاب ہونے والے بیٹے علی حیدر گیلانی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ 3 سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے جو ان کے ذریعے ایمن الظواہری کے خاندان کی چند خواتین کو رہا اور بھاری رقم چاہتے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں علی حیدر گیلانی نے اپنی 3 سالہ قید کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ 3 سال تک القاعدہ کے قبضے میں رہے اور کراچی سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا ایک اہم رکن ضیاء انکے ساتھ 3 سال تک رہا۔ علی گیلانی کا کہنا تھا کہ اغوا سے قبل اگرچہ انہیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی تاہم انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ میں اپنی سکیورٹی سے مطمئن تھا۔ انہوں نے کہا ایک جلسے کے بعد بہت سارے لوگوں اور اپنے دو محافظوں کے ساتھ میں باہر نکلا تو کسی نے میری گردن سے پکڑ کر مجھے زور سے دھکا دیا اور میں زمین پر گر گیا۔ پھر میں نے گولیوں کی آواز سنی اور اپنے دونوں محافظوں کو گرتے دیکھا۔ میں زمین پر لیٹا تھا کہ انہوں نے بندوق میرے سر پر دے ماری اور میرا سر پھٹ گیا، مجھے اس وقت لگا کہ شاید مارنے آئے ہیں۔ علی حیدر گیلانی کے مطابق انکے اغواکاروں کی تعداد چھ تھی۔ انہوں نے مجھے گاڑی میں ڈالا اور اس خوف سے کہ کوئی جاسوسی کے آلات میرے کپڑوں میں نہ ہوں میرے کپڑے اور جوتے اتار کر باہر پھینک دیئے۔ انکا مجھ سے پہلا سوال یہ تھا کہ آپ سنی ہو یا شیعہ، مجھے لگا کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ واردات ہے۔ انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی لہٰذا میں انہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اب انکے چہرے بھول گیا ہوں، وہ سب پنجابی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر مجھے خاموش رہنے کیلئے کہا اور ایسا نہ کرنے پر گولی مارنے کی دھمکی دی اور گاڑی ملتان سے خانیوال روڈ پر ڈال دی۔ انہوں نے بتایا کہ اغوا کے بعد انھیں کچھ عرصے تک فیصل آباد میں رکھا گیا جہاں سے انہیں وزیرستان منتقل کیا گیا۔ ملتان سے فیصل آباد تک سفر میں کوئی پولیس چوکی نہیں آئی اور نہ کہیں چیکنگ ہوئی۔ مجھے کوئی اڑھائی ماہ تک فیصل آباد میں ایک مکان میں رکھا گیا۔ اخبار وہاں آتے تھے اسلئے اندازہ ہوا کہ یہ فیصل آباد ہے۔ انہوں نے مجھے زنجیر سے باندھ کر رکھا بلکہ بعض اوقات وہ رات کو سوتے ہوئے ہاتھوں میں بھی زنجیر پہنا دیتے تھے۔ وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ مجھے وزیرستان لیکر جا رہے ہیں دو ماہ کیلئے جہاں سے وہ مجھے رہا کر دیں گے کیونکہ انکی میرے خاندان سے ڈیل ہوگئی ہے۔ اغوا کاروں نے کہا آپکے والد کے دور میں اسامہ کیخلاف آپریشن سوات ، وزیرستان میں کارروائی ہوئی ،آپ ہمارے دشمن ہو۔ 22 جولائی 2013 کو وہ مجھے ایک گاڑی میں براستہ موٹر وے بنوں سے وزیرستان لے گئے۔ انہوں نے مجھے اور دو اور لوگوں کو برقعے پہنا دیئے اور چپ رہنے کیلئے کہا۔ بنوں سے وزیرستان جاتے ہوئے کوئی دس فوجی چوکیاں آئیں۔ ایک دو پر شناخت کیلئے روکا گیا لیکن صرف ڈرائیور کا شناختی کارڈ دیکھ کر چھوڑ دیتے تھے، مسافروں کی چیکنگ نہیں کر رہے تھے۔ (شمالی وزیرستان میں) میں ڈانڈے درپہ خیل میں مجھے سات ماہ تک رکھا گیا۔ وہاں بھی سارے پنجابی بولنے والے اور ایک جرمن مغوی تھا جسے ملتان سے اٹھایا گیا تھا۔ مجھ پر انھوں نے کبھی جسمانی تشدد نہیں کیا لیکن ذہنی دباؤ میں رکھتے تھے۔ زنجیر کی وجہ سے بیت الخلا جانے میں دقت وغیرہ کافی رہی۔ قید کے دوران میں نے 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا، کمرے میں ایک بلب 24 گھنٹے جلتا رہتا تھا، قدرتی روشنی ناپید تھی، طالبان کو کرکٹ کا شوق تھا۔ ورلڈ کپ کے دوران جب پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیل رہا تھا تو میں نے اپنے اغوا کاروں سے درخواست کی کہ مجھے میچ دیکھنے دیں۔ انہوں نے ٹی وی تو نہیں لیکن ریڈیو کا بندوبست کردیا۔ علی حیدر کے مطابق انکے اغواکاروں کے مطالبات غیرحقیقی تھے جیسے کہ امریکی فوج کا افغانستان سے مکمل انخلا، قیدیوں کی رہائی اور رقم کا تقاضہ لیکن پیسہ ان کیلئے کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں انکے اغوا کار اکثر بتاتے تھے کہ اگر انکی رہائی کیلئے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو سب سے پہلے وہ خود انہیں گولی مار دیں گے۔ بازیابی کے آپریشن کے حوالے سے علی حیدر نے کہا کہ جب 9 مئی کا دن آیا، اس روز اتفاق سے میں بہت افسردہ تھا۔ شام کو القاعدہ کا آدمی آیا اور کہا کہ آج چھاپہ پڑیگا۔ نماز عشاء کے بعد وہ مجھے مکان سے باہر لے گئے۔اتنا اندازہ تھا کہ وہ مجھے پاکستان کی جانب لے جا رہے تھے۔ مجھے سرحدی پہاڑ دکھائی دے رہے تھے، میرے پاؤں کے چپل اتر گئے تھے۔ ایسے میں دو امریکی شنوک ہیلی کاپٹر اور شاید دو بغیر آواز والے کوبرا تھے جو ہم پر روشنی ڈال رہے تھے۔ میرے اغوا کار نے پہلے کہا لیٹ جاؤ میں لیٹ گیا، پھر کہا بھاگو۔ میں اغوا کاروں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے دوسری سمت میں دوڑا، تین چار فائر ہوئے۔ مجھے یقین تھا کہ میں بھی مارا جاؤں گا، بس یہ چند سیکنڈز کی دوری نے مجھے بچا لیا۔ القاعدہ کے اغوا کار کے مرنے کے بعد امریکیوں نے مجھ سے پشتو میں کچھ کہا۔ میں نے چیخ کر جواب دیا انگلش۔ تو انہوں نے پھر مجھے قمیض اتارنے اور ہاتھ اونچے کرنے کی ہدایات دیں۔ امریکی فوجی آیا اور اس نے میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ میں نے اسے اپنا تعارف کروایا کہ میں علی حیدر گیلانی ہوں اور میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہوں، تو وہ حیران ہوا۔ اس نے میری آنکھوں میں روشنی ڈال کر دیکھا اور کہا کہ اسکا رنگ تو نہیں ملتا۔ پھر سر دیکھا اور کہا کہ ہیئر لائن بھی نہیں ملتی، شاید وہ کسی اور کے ساتھ مجھے ملا رہے تھے۔ پھر اس نے اپنے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور منٹوں میں تصدیق آ گئی تو اس نے مجھ سے کہا، گیلانی صاحب آپ گھر جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران بتایا کہ آج بھی جب اے سی چلتا ہے تو لگتا ہے جیسے کوئی ڈرون طیارہ سر پر گھوم رہا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن