نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چودھری نثار نے کہا، نجانے سنجیدگی سے کہا ہے یا مذاق کیاہے، عمران خان کے لئے ہمارا پرویز رشید ہی کافی ہے۔ پرویز رشید کو وزیر شذیر ہی عمران خان کے لئے بنایا گیا ہے۔ پرویز رشید کی وزارت کا نام ’’اطلاعات و نشریات اور عمرانیات‘‘ ہونا چاہئے۔ ویسے صرف وزیر عمرانیات بھی کافی ہے۔ پرویز رشید اپوزیشن کا آدمی حکومت میں ہے، وہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے کہ اپوزیشن لیڈر صرف عمران خان ہے۔ تو پھر خورشید شاہ کیا کرتے ہیں انہیں پرویز رشید جھک جھک کر ملتا ہے۔ پھر بھی خورشید شاہ سمجھتے ہیں کہ ہم فرینڈلی اپوزیشن نہیںہیں۔ تو کیا وہ بیسٹ فرینڈلی اپوزیشن ہیں، فرینڈلی اپوزیشن تو نواز شریف بھی تھے۔ تب وہ اسمبلی میں نہ تھے پھر بھی ’’تھے‘‘۔ اپنی موجودگی کو اپنی عدم موجودگی سے ثابت کرنا ایسے ہی ہوتا ہے۔ مگر شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور اب بھی ہیں۔
اپوزیشن ہمارے ہاں بہت عجیب ہے، اپوزیشن میں سے الف ہٹا لیا جائے تو باقی پوزیشن رہ جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا کام ہی اپنی پوزیشن بنانا بلکہ اپنی پوزیشن قائم رکھنا ہے۔ ہمارے ہاں انوکھا سیاسی نظام ہے۔ ہر سیاسی پارٹی میں ہے اور وہ اپوزیشن میں بھی ہے۔ ن لیگ بھی عمران خان کی اپوزیشن میں ہے۔ عمران خان بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سنبھال کے بیٹھا ہے اور اور دھڑا دھڑ اپوزیشن بھی کرتا جارہا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وڈے سائیں شاہ صاحب دوسری بار وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کو دعائیں دیں اور بلاول کی فرماں برداری جاری رکھیں۔ لیکن حیرت ہے کہ بی بی بے نظیر بھٹو نے بھی قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنائے رکھا تھا۔ اس لئے میں انہیں قائم مقام علی شاہ کہتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت عجیب ہے کہ ن لیگ کی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ وفاق میں انہیں ن لیگ کی حکومت سے کوئی فکر ہے؟ جمہوریت زندہ باد؟ عزیزی پرویز رشید عمران خان کے لئے کافی ہے جیسے قائم علی شاہ ڈی جی رینجرز کے لئے کافی ہے؟
چودھری نثار اور جنرل راحیل شریف کے لئے ایک نرم گوشہ دل میں رکھتا ہوں۔ یہ یکطرفہ تعلق کی خوشبو ہے جو میرے آس پاس ایک گمشدہ چیز کی طرح رہتی ہے۔ میں اپنی ہر گمشدہ چیز کو ڈھونڈتا رہتا ہوں اور خواہش رکھتا ہوں کہ یہ مجھے مل نہ جائے ورنہ میں کیا کروں گا؟ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کا خاتمہ کردیں گے، یہی جنرل راحیل شریف بھی کہتے ہیں، مجھے دونوں پر یقین ہے۔ مگر آخر کب؟ ایک ایسا ہی تعلق جنرل راحیل شریف اور چودھری نثار میں ہے، چودھری صاحب شہباز شریف سے بھی ایسا ہی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعلق کچھ کچھ نوازشریف سے بھی ہے۔ مریم نوازشریف آجکل نوازشریف کی سیاسی جانشین ہیں، ہر وہ آدمی جس کے نام کے ساتھ شریف آتا ہے، اس کے ساتھ چودھری نثار والی پالیسی کے تحت تعلق بنانا چاہئے۔ آجکل کسی کو یہ کہنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ وہ ’’شریف‘‘ آدمی ہے؟
چودھری نثار نے کہا اور خوب کہا پورے ملک میں دہشت گردوں کے لئے ماحول سازگار ہے۔ اس سازگار ماحول کو خوشگوار ماحول کس نے بنایا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ چودھری صاحب کو سب پتہ ہے، وہ بہت زبردست وزیر ہیں ،لوگ ان کے معترف اور مداح ہیں۔ میں بھی ہوں مگر اب اُن کے لئے میٹھی میٹھی باتیں ہونا شروع ہوئی ہیں۔
ایک تو ڈالر ماڈل گرل ایان علی کے حوالے سے چودھری صاحب کا نام آرہا ہے، اسے کراچی ائیرپورٹ سے عدالتی حکم نامے کے باوجود جانے نہ دیا گیا۔ اس بے چاری کو بہت سزا مل چکی ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کو گرفتار نہیں کراتے ۔اس کے بعد ایان علی کو بھی کچھ حوصلہ ہوگا۔ جس کسٹم والے آفیسر نے ایان کو پکڑا تھا اُسے دن دیہاڑے گولی مروا دی گئی۔ کس نے گولی مروائی۔ اس کے علاوہ سوال یہ بھی ہے کہ اس بے چار ے کا قتل رائیگاں گیا۔ پتہ نہیں مقدمہ بھی درج کیا گیا یا نہیں۔ ایسے خون رزقِ خاک ہوجاتے ہیں، خون اور خاک میں کچھ فرق ہے؟ اب کون پکڑے گا کسی وی آئی پی کے خاص بندے کو یا خاص بندی کو۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کامیاب ہوا۔ پھر اچانک کچھ ہوجاتا ہے اور لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد آپریشن ضرب عضب ہوا مگر ایک سرکاری وزیرستان بھی ہے اسلام آباد میں، جہاں وزیر وغیرہ رہتے ہیں وہاں آپریشن نہ کریں مگر تفتیش تو کریں۔ کرپشن، نااہلی اقربا پروری، سیاست کا جرم اور کتنے ہی جرم یہاں ہوتے ہیں کہ جرم اور ظلم میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
کہتے ہیں کراچی میں امجد صابری کا قتل اور چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان ہے تو جواب کس کے پاس ہے۔ سیاست میں جواب کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا کراچی میں سراسیمگی کا راج ہے۔ بھتہ خوری ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی ہے مگر مجبوری ہے، یہ کبھی کبھی کی وارداتیں زیادہ ہولناک اور خطرناک ہیں لوگ مطمئن ہونے لگتے ہیں اور پھر خوف کا دروازہ تیز ہوا سے ہلنے لگتا ہے۔ شکر ہے اسحاق ڈار کراچی نہیں گئے۔ چودھری صاحب کی یہ بات بہت معنی خیز ہے۔ ہم دہشت گردی کی جنگ جیت رہے ہیں مگر نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں۔