پنجاب: 8سال گذر گئے، مشرف کے بلدیاتی نظام سے چھٹکارا نہ مل سکا
لاہور ( سید شعیب الدین سے) پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت 8برس میں اپنے بد ترین دشمن پر ویز مشرف کے بلدیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکی۔ 2008ءمیں پنجاب میں بر سر اقتدار آنیوالے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو 3سال تک پرویز مشرف کے ناظمین کو برداشت کرنا پڑا۔ ان ناظمین کو گھر گئے کئی برس گزر گئے ہیں مگر پنجاب حکومت متبادل نظام نہیں دے سکی۔2013ءمیں نئے بلدیاتی نظام کا بل پنجاب اسمبلی سے منظور کر ایا گیا ہے۔ابھی تک نافذ نہیں کرایا جا سکا اب اس کے نفاذ سے پہلے ہی اس میں ترامیم کی جا چکی ہیں۔ 2013ءکے نئے نظام کے تحت چیئرمین، وائس چیئرمین اور 6جنرل کونسلروں کے انتخابات 2015ءمیں کرائے گئے ، مگر کامیاب ہونیوالے تا حال گھر بیٹھے ہیں۔ حکومت ابھی تک اس کام میں سنجیدہ نہیں، حکومت ان نمائندوں کو جس طرح ” منتخب “ کرنا چاہتی ہے وہ اپوزیشن کو قابل قبول نہیں۔ دوسری طرف مشرف کا نیا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے۔ ڈی سی او ، ٹی ایم او، ٹاﺅن پلاننگ افسر ٹاﺅن فنانس افسر، ٹاﺅن افسر ، ریگولیشن اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ڈی سی او لاہور اس نظام میں ” فیصل آباد کا گھنٹہ گھر“ ہیں۔ ہر راستہ ان کی طرف جاتا ہے۔ ضلعی ناظمین کو گھر بھیجنے کے بعد ڈی سی اوز ضلعی اسمبلی بھی ہیں، نائب ناظم بھی ہیں اور ناظم بھی لہذا قرار داد خود پیش کر سکتے ہیں اور اس قرار داد کو منظور بھی خود ہی کر کے اسی پر بطور ناظم عملدرآمد بھی کرا سکتے ہیں۔ یہ وہ اختیارات ہیں جنہیں کوئی افسر چھوڑ نے پر تیار نہیں۔ حکومت کو ہر کام کیلئے آج بھی ٹاﺅن میونسپل افسر دکھائی دیتے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ ہو رمضان بازار، ڈینگی سپرے ہو یا پولیو کے قطرے ہر کام ٹی ایم اے کے افسر وں کو سونپا جاتا ہے۔2013کا ایکٹ بھی نافذ ہے اور 2001کا مشرف کا نظام بھی لاگو پنجاب وہ با کمال صوبہ ہے جہاں بیک وقت دو بلدیاتی نظام لاگو ہیں گورنر پنجاب نے 2013کے بلدیاتی ایکٹ کو نافذ کرنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی کہہ دیا کہ سیکشن 154پر عمل نہیں ہو گا۔یعنی 2001ءکا بلدیاتی آرڈیننس ختم نہیں ہو گا۔دوسری طرف منتخب چیئرمینوں ، وائس چیئرمینوں،جنرل کونسلروں کی پریشانیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ الیکشن تو جیت گئے مگر ضلعی حکومت، ٹاﺅن انتظامیہ اور یونین کونسل دفاتر میں وہ” اچھوت قرار دے دیئے گئے ہیں وہ وہاں گھس نہیں سکتے پنجاب حکومت نے ان کے حوصلے جوان رکھنے کیلئے 90شاہراہ قائد اعظم بلا کر ان سے مشورے لئے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی ایز کے ساتھ بیٹھا کر ان سے علاقے کی بہتری کیلئے سکیمیں لی گئی ہیں مگر سچ یہ ہے کہ 2013ءکے نظام کی طرح بے اختیار ہیں ان کو اختیارات جلد ملتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
بلدیاتی نظام