• news
  • image

سیاسی افطاری اگلا آرمی چیف قلم قبیلہ طب کا تصوف

جاتے ہوئے رمضان کے افطار میں انتظار کی کیفیت غائب ہو جاتی ہے۔ افطاریوں میں بے قراریوں اور سرشاریوں کا سراغ لگانا پڑتا ہے؟ آج مجھے افطاری پر ناصر اقبال خان نے بلایا تھا۔ اس کے بعد غلام حسین شاہد نے بھی کہہ دیا۔ بہرحال میں برادرم ناصر اقبال خان کی دعوت پر آیا تھا اور وہ ابھی محفل میں نہیں آیا تھا؟
یہاں ایک بڑا سٹیج تھا جہاں مسلم لیگ کے نمایاں لوگ بیٹھے تھے۔ نجانے ایسی جگہوں پر مجھے ناصر اقبال خان کیوں بلا لیتا ہے۔ میرے ساتھ دائیں بائیں جو لوگ بیٹھے تھے میں انہیں پہچانتا نہ تھا دوسری زیادتی میرے ساتھ یہ تھی کہ وہ دونوں مجھے جانتے تھے۔ میرے ساتھ مسلم لیگ کی مسز ملک نے بہت اچھے طریقے سے اپنا تعارف کرایا۔
میانوالی کی نمائندہ خاتون لیڈر ذکیہ شاہنواز صدارت کر رہی تھیں۔ ذکیہ شاہنواز شاندار شخصیت کی مالک ہیں۔ بہت گریس فل خاتون ہیں۔ اس افطاری کی ایک ہی یہ خوبی تھی کہ یہاں ذکیہ شاہنواز تھیں۔ حافظ شفیق الرحمن اور خالد چودھری بھی تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو میرے لئے اجنبی تھے مگر وہ میرے ساتھ بہت اپنائیت ظاہر کر رہے تھے۔ ایسے موقعوں پر تصویریں بنوانے والے مجھے دوستوں کے ساتھ بھی ملنے نہیں دیتے۔
برادرم غلام حسین شاہد نے ایک سیاسی اور عوامی افطاری کا بندوبست کیا تھا۔ اس نے خود سٹیج سنبھالا ہوا تھا اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات میں سے کسی کو کھانا نہ ملا۔
بڑے دنوں کے بعد ایم پی اے صبا صادق نظر آئی۔ اس سے مل کر خوشی ہوئی۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر بھی تھی اور اب ایک مخلص خاتون لیڈر ہے۔ غلام حسین شاہد نے کچھ نمایاں شخصیات کو بلایا تھا۔ مگر یہ ایک جلسہ عام بن گیا۔ غلام حسین شاہد نے بہت محبت کی۔ اس نے جلسے کی کارروائی شروع کی اور اس سے پہلے کہ مجھے دعوت خطاب دی جاتی حافظ شفیق الرحمن اور ناصر اقبال خان کے ساتھ میں باہر نکل آیا۔
جنرل سلیم باجوہ ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر آج کل بات کرتے ہوئے بہت سنجیدہ ہوتے ہیں اور بارعب نظر آنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ آرمی چیف کے بہت چہیتے ہیں یعنی پسندیدہ ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جنرل باجوہ کو میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بنایا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر یہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔ یہ جنرل باجوہ کی پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا کام نہیں بدلا ہے۔
آئی ایس پی آر کے دفتر میں میرے لئے سب سے زیادہ اہم اور پسندیدہ چیز ماہنامہ ہلال ہے۔ یہ میگزین بہت اچھا ہے۔ پاک فوج کا ترجمان ہے۔ آج کل ہلال کا ایڈیٹر قومی سوچ کا مالک ادیب اور مزاح نگار یوسف عالمگیرین ہے۔ وہ انوکھی سوچ کا آدمی ہے کہ باقاعدہ فوج میں نہیں ہے مگر اپنی نسبت فوج اور قوم کے ساتھ سلامت رکھتا ہے۔ وہ ملٹری سکول آف جہلم سرائے عالمگیر سے پڑھا ہوا ہے۔ فوج میں نہ جا سکا تو فوج کا ترجمان بن گیا۔
میں نے بھی آئی ایس پی آر کو وزٹ کیا ہے۔ یوسف نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے کئی عمارتیں بنوائی ہیں۔ وہ بہت خیال رکھنے والے آدمی ہیں۔ دفتر میں ہر شخص کے لئے وہ ہر تعاون کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پازیٹو سرگرمیوں کے لئے بہت دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس پی آر کو پوری طرح اون کیا ہے اور اپنائیت کے ساتھ تمام معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ میری دلچسپی ہلال کے ساتھ ہے۔ اسے جنرل باجوہ کے تعاون کے ساتھ یوسف عالمگیرین نے نمائندہ میگزین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ادبیت کو بھی سلامت رکھا ہے۔
ریاض ندیم نیازی میرے قبیلے کا آدمی ہے۔ بہترین شاعر اور سرگرم ادبی شخصیت ہے۔ وہ لاہور آتا جاتا رہتا ہے۔ کسی تقریب میں اچانک آپ کی نظر اس پر پڑتی ہے کوئٹہ بلوچستان کے حوالے سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین کا بہت چرچا رہا ہے۔ انہوں نے بلاشبہ بہت کام کیا ہے اور کوئٹہ کو قومی ادبی ادھارے میں شامل کر دیا ہے۔ اس کے بعد ریاض ندیم نیازی نے یہ ذمہ داری پوری طرح قبول کی ہے اور لاہور کے ساتھ مسلسل رابطے کی وجہ سے بہت رونق لگائی ہے۔ و ہ گرم ترین علاقے سبی میں رہائش رکھتا ہے۔ قلم قبیلہ کی بنیاد بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے رکھی تھی۔ وہ قلم قبیلہ کی چیئرمین ہیں جبکہ جنرل رحیم الدین اب ریٹائر ہو کر گھر میں بیٹھے بیٹھے مزید بوڑھے ہو گئے ہیں۔
پچھلے دنوں کوئٹہ میں ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔ لاہور سے صدارت کرنے کے لئے شہناز مزمل گئی ہوئی تھیں۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے شمع جلا کے مشاعرے کا آغاز کیا۔ بہت شاعروں نے کلام سنایا۔ ریاض ندیم نیازی کی شاعری کو بہت سراہا گیا۔ راغب تحسین، سرور جاوید اور صاحب صدر شہناز مزمل کے علاوہ کئی شاعروں نے اپنی شاعری پیش کی۔
بیگم ثاقبہ رحیم الدین کے تازہ شعری مجموعے ”جلتے سمے“ کی تقریب ہوئی۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے صدارت کی جبکہ وہ شاعری کیلئے محمود خان اچکزئی کی طرح کچھ نہیں جانتے۔ مہمان خصوصی جنرل عامر ریاض تھے۔ وہ بھی شاعری کےلئے کچھ نہ جانتے ہونگے۔ اس کا کریڈٹ ثاقبہ رحیم الدین کو جاتا ہے یہ لوگ تقریب میں آئے۔ دوستوں نے مقالات پڑھے۔ آج سے 38 برس پہلے قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ قائم کیا گیا تھا۔ بچوں کیلئے چلڈرن اکیڈمی بھی بنائی گئی تھی۔ ثاقبہ گرلز کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ثاقبہ کی شاعری کیلئے مختلف خواتین و حضرات نے اظہار خیال کیا۔ ثاقبہ کیلئے ایک ضخیم کتاب مرتب کی گئی ہے۔ جس میں کئی لکھاریوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کتاب کی عزت بن گئی کہ بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور پروفیسر مقصود جعفری کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ برادرم ریاض ندیم کی ثاقبہ رحیم الدین کیلئے یہ ادبی کوشش گراں قدر ہے۔ ہم اسے اور ثاقبہ بی بی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
برادرم نصراللہ بلوچ مجھے ہومیو پیتھی کے ایک ممتاز ڈاکٹر سجاد حسین کے پاس لے گئے۔ ان کے پاس میز پر نامور ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر رکھی ہے۔ انہیں نوبل پرائز ملا جو پاکستان کےلئے ایک افتخار کی طرح ہے مگر کئی لوگوں کو اعتراض تھا ہم اپنے لوگوں کو اعزاز ملنے سے ناراض کیوں ہو جاتے ہیں۔ اب ہماری ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی کو نوبل پرائز ملا ہے تو بھی ہم خوش نہیں ہیں۔ جبکہ ملالہ کا معاملہ ڈاکٹر عبدالسلام کے مقابلے میں بہت کمتر اور سیاسی ہے۔
میں ہومیو پیتھی کو طب کا تصوف سمجھتا ہوں یہاں مرض کا علاج نہیں کیا جاتا۔ مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہومیو ڈاکٹر کیلئے بڑی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مریض کی شخصیت پر پوری طرح غور و خوض کرے۔ بہت شاندار آدمی ڈاکٹر سجاد حسین سے بہت دلچسپ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے نامور شاعر مرحوم احمد ندیم قاسمی کو یاد کیا کہ وہ بھی ان کے پاس آتے تھے....
ایک دمکتا ذہن بھی ہوں اک سلگتا دل بھی ہوں
فکر کا شاعر ہوں لیکن حسن کا گھائل بھی ہوں

سیاسی افطاری اگلا آرمی چیف قلم قبیلہ طب کا تصوف
جاتے ہوئے رمضان کے افطار میں انتظار کی کیفیت غائب ہو جاتی ہے۔ افطاریوں میں بے قراریوں اور سرشاریوں کا سراغ لگانا پڑتا ہے؟ آج مجھے افطاری پر ناصر اقبال خان نے بلایا تھا۔ اس کے بعد غلام حسین شاہد نے بھی کہہ دیا۔ بہرحال میں برادرم ناصر اقبال خان کی دعوت پر آیا تھا اور وہ ابھی محفل میں نہیں آیا تھا؟
یہاں ایک بڑا سٹیج تھا جہاں مسلم لیگ کے نمایاں لوگ بیٹھے تھے۔ نجانے ایسی جگہوں پر مجھے ناصر اقبال خان کیوں بلا لیتا ہے۔ میرے ساتھ دائیں بائیں جو لوگ بیٹھے تھے میں انہیں پہچانتا نہ تھا دوسری زیادتی میرے ساتھ یہ تھی کہ وہ دونوں مجھے جانتے تھے۔ میرے ساتھ مسلم لیگ کی مسز ملک نے بہت اچھے طریقے سے اپنا تعارف کرایا۔
میانوالی کی نمائندہ خاتون لیڈر ذکیہ شاہنواز صدارت کر رہی تھیں۔ ذکیہ شاہنواز شاندار شخصیت کی مالک ہیں۔ بہت گریس فل خاتون ہیں۔ اس افطاری کی ایک ہی یہ خوبی تھی کہ یہاں ذکیہ شاہنواز تھیں۔ حافظ شفیق الرحمن اور خالد چودھری بھی تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو میرے لئے اجنبی تھے مگر وہ میرے ساتھ بہت اپنائیت ظاہر کر رہے تھے۔ ایسے موقعوں پر تصویریں بنوانے والے مجھے دوستوں کے ساتھ بھی ملنے نہیں دیتے۔
برادرم غلام حسین شاہد نے ایک سیاسی اور عوامی افطاری کا بندوبست کیا تھا۔ اس نے خود سٹیج سنبھالا ہوا تھا اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات میں سے کسی کو کھانا نہ ملا۔
بڑے دنوں کے بعد ایم پی اے صبا صادق نظر آئی۔ اس سے مل کر خوشی ہوئی۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر بھی تھی اور اب ایک مخلص خاتون لیڈر ہے۔ غلام حسین شاہد نے کچھ نمایاں شخصیات کو بلایا تھا۔ مگر یہ ایک جلسہ عام بن گیا۔ غلام حسین شاہد نے بہت محبت کی۔ اس نے جلسے کی کارروائی شروع کی اور اس سے پہلے کہ مجھے دعوت خطاب دی جاتی حافظ شفیق الرحمن اور ناصر اقبال خان کے ساتھ میں باہر نکل آیا۔
جنرل سلیم باجوہ ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر آج کل بات کرتے ہوئے بہت سنجیدہ ہوتے ہیں اور بارعب نظر آنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ آرمی چیف کے بہت چہیتے ہیں یعنی پسندیدہ ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جنرل باجوہ کو میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بنایا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر یہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔ یہ جنرل باجوہ کی پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا کام نہیں بدلا ہے۔
آئی ایس پی آر کے دفتر میں میرے لئے سب سے زیادہ اہم اور پسندیدہ چیز ماہنامہ ہلال ہے۔ یہ میگزین بہت اچھا ہے۔ پاک فوج کا ترجمان ہے۔ آج کل ہلال کا ایڈیٹر قومی سوچ کا مالک ادیب اور مزاح نگار یوسف عالمگیرین ہے۔ وہ انوکھی سوچ کا آدمی ہے کہ باقاعدہ فوج میں نہیں ہے مگر اپنی نسبت فوج اور قوم کے ساتھ سلامت رکھتا ہے۔ وہ ملٹری سکول آف جہلم سرائے عالمگیر سے پڑھا ہوا ہے۔ فوج میں نہ جا سکا تو فوج کا ترجمان بن گیا۔
میں نے بھی آئی ایس پی آر کو وزٹ کیا ہے۔ یوسف نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے کئی عمارتیں بنوائی ہیں۔ وہ بہت خیال رکھنے والے آدمی ہیں۔ دفتر میں ہر شخص کے لئے وہ ہر تعاون کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پازیٹو سرگرمیوں کے لئے بہت دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس پی آر کو پوری طرح اون کیا ہے اور اپنائیت کے ساتھ تمام معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ میری دلچسپی ہلال کے ساتھ ہے۔ اسے جنرل باجوہ کے تعاون کے ساتھ یوسف عالمگیرین نے نمائندہ میگزین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ادبیت کو بھی سلامت رکھا ہے۔
ریاض ندیم نیازی میرے قبیلے کا آدمی ہے۔ بہترین شاعر اور سرگرم ادبی شخصیت ہے۔ وہ لاہور آتا جاتا رہتا ہے۔ کسی تقریب میں اچانک آپ کی نظر اس پر پڑتی ہے کوئٹہ بلوچستان کے حوالے سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین کا بہت چرچا رہا ہے۔ انہوں نے بلاشبہ بہت کام کیا ہے اور کوئٹہ کو قومی ادبی ادھارے میں شامل کر دیا ہے۔ اس کے بعد ریاض ندیم نیازی نے یہ ذمہ داری پوری طرح قبول کی ہے اور لاہور کے ساتھ مسلسل رابطے کی وجہ سے بہت رونق لگائی ہے۔ و ہ گرم ترین علاقے سبی میں رہائش رکھتا ہے۔ قلم قبیلہ کی بنیاد بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے رکھی تھی۔ وہ قلم قبیلہ کی چیئرمین ہیں جبکہ جنرل رحیم الدین اب ریٹائر ہو کر گھر میں بیٹھے بیٹھے مزید بوڑھے ہو گئے ہیں۔
پچھلے دنوں کوئٹہ میں ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔ لاہور سے صدارت کرنے کے لئے شہناز مزمل گئی ہوئی تھیں۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے شمع جلا کے مشاعرے کا آغاز کیا۔ بہت شاعروں نے کلام سنایا۔ ریاض ندیم نیازی کی شاعری کو بہت سراہا گیا۔ راغب تحسین، سرور جاوید اور صاحب صدر شہناز مزمل کے علاوہ کئی شاعروں نے اپنی شاعری پیش کی۔
بیگم ثاقبہ رحیم الدین کے تازہ شعری مجموعے ”جلتے سمے“ کی تقریب ہوئی۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے صدارت کی جبکہ وہ شاعری کیلئے محمود خان اچکزئی کی طرح کچھ نہیں جانتے۔ مہمان خصوصی جنرل عامر ریاض تھے۔ وہ بھی شاعری کےلئے کچھ نہ جانتے ہونگے۔ اس کا کریڈٹ ثاقبہ رحیم الدین کو جاتا ہے یہ لوگ تقریب میں آئے۔ دوستوں نے مقالات پڑھے۔ آج سے 38 برس پہلے قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ قائم کیا گیا تھا۔ بچوں کیلئے چلڈرن اکیڈمی بھی بنائی گئی تھی۔ ثاقبہ گرلز کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ثاقبہ کی شاعری کیلئے مختلف خواتین و حضرات نے اظہار خیال کیا۔ ثاقبہ کیلئے ایک ضخیم کتاب مرتب کی گئی ہے۔ جس میں کئی لکھاریوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کتاب کی عزت بن گئی کہ بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور پروفیسر مقصود جعفری کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ برادرم ریاض ندیم کی ثاقبہ رحیم الدین کیلئے یہ ادبی کوشش گراں قدر ہے۔ ہم اسے اور ثاقبہ بی بی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
برادرم نصراللہ بلوچ مجھے ہومیو پیتھی کے ایک ممتاز ڈاکٹر سجاد حسین کے پاس لے گئے۔ ان کے پاس میز پر نامور ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر رکھی ہے۔ انہیں نوبل پرائز ملا جو پاکستان کےلئے ایک افتخار کی طرح ہے مگر کئی لوگوں کو اعتراض تھا ہم اپنے لوگوں کو اعزاز ملنے سے ناراض کیوں ہو جاتے ہیں۔ اب ہماری ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی کو نوبل پرائز ملا ہے تو بھی ہم خوش نہیں ہیں۔ جبکہ ملالہ کا معاملہ ڈاکٹر عبدالسلام کے مقابلے میں بہت کمتر اور سیاسی ہے۔
میں ہومیو پیتھی کو طب کا تصوف سمجھتا ہوں یہاں مرض کا علاج نہیں کیا جاتا۔ مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہومیو ڈاکٹر کیلئے بڑی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مریض کی شخصیت پر پوری طرح غور و خوض کرے۔ بہت شاندار آدمی ڈاکٹر سجاد حسین سے بہت دلچسپ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے نامور شاعر مرحوم احمد ندیم قاسمی کو یاد کیا کہ وہ بھی ان کے پاس آتے تھے....
ایک دمکتا ذہن بھی ہوں اک سلگتا دل بھی ہوں
فکر کا شاعر ہوں لیکن حسن کا گھائل بھی ہوں

سیاسی افطاری اگلا آرمی چیف قلم قبیلہ طب کا تصوف
جاتے ہوئے رمضان کے افطار میں انتظار کی کیفیت غائب ہو جاتی ہے۔ افطاریوں میں بے قراریوں اور سرشاریوں کا سراغ لگانا پڑتا ہے؟ آج مجھے افطاری پر ناصر اقبال خان نے بلایا تھا۔ اس کے بعد غلام حسین شاہد نے بھی کہہ دیا۔ بہرحال میں برادرم ناصر اقبال خان کی دعوت پر آیا تھا اور وہ ابھی محفل میں نہیں آیا تھا؟
یہاں ایک بڑا سٹیج تھا جہاں مسلم لیگ کے نمایاں لوگ بیٹھے تھے۔ نجانے ایسی جگہوں پر مجھے ناصر اقبال خان کیوں بلا لیتا ہے۔ میرے ساتھ دائیں بائیں جو لوگ بیٹھے تھے میں انہیں پہچانتا نہ تھا دوسری زیادتی میرے ساتھ یہ تھی کہ وہ دونوں مجھے جانتے تھے۔ میرے ساتھ مسلم لیگ کی مسز ملک نے بہت اچھے طریقے سے اپنا تعارف کرایا۔
میانوالی کی نمائندہ خاتون لیڈر ذکیہ شاہنواز صدارت کر رہی تھیں۔ ذکیہ شاہنواز شاندار شخصیت کی مالک ہیں۔ بہت گریس فل خاتون ہیں۔ اس افطاری کی ایک ہی یہ خوبی تھی کہ یہاں ذکیہ شاہنواز تھیں۔ حافظ شفیق الرحمن اور خالد چودھری بھی تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو میرے لئے اجنبی تھے مگر وہ میرے ساتھ بہت اپنائیت ظاہر کر رہے تھے۔ ایسے موقعوں پر تصویریں بنوانے والے مجھے دوستوں کے ساتھ بھی ملنے نہیں دیتے۔
برادرم غلام حسین شاہد نے ایک سیاسی اور عوامی افطاری کا بندوبست کیا تھا۔ اس نے خود سٹیج سنبھالا ہوا تھا اور سٹیج پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات میں سے کسی کو کھانا نہ ملا۔
بڑے دنوں کے بعد ایم پی اے صبا صادق نظر آئی۔ اس سے مل کر خوشی ہوئی۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر بھی تھی اور اب ایک مخلص خاتون لیڈر ہے۔ غلام حسین شاہد نے کچھ نمایاں شخصیات کو بلایا تھا۔ مگر یہ ایک جلسہ عام بن گیا۔ غلام حسین شاہد نے بہت محبت کی۔ اس نے جلسے کی کارروائی شروع کی اور اس سے پہلے کہ مجھے دعوت خطاب دی جاتی حافظ شفیق الرحمن اور ناصر اقبال خان کے ساتھ میں باہر نکل آیا۔
جنرل سلیم باجوہ ڈائریکٹرجنرل آئی ایس پی آر آج کل بات کرتے ہوئے بہت سنجیدہ ہوتے ہیں اور بارعب نظر آنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ آرمی چیف کے بہت چہیتے ہیں یعنی پسندیدہ ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جنرل باجوہ کو میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بنایا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے طور پر یہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی۔ یہ جنرل باجوہ کی پبلک ریلیشننگ کے حوالے سے صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔ میجر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ان کا کام نہیں بدلا ہے۔
آئی ایس پی آر کے دفتر میں میرے لئے سب سے زیادہ اہم اور پسندیدہ چیز ماہنامہ ہلال ہے۔ یہ میگزین بہت اچھا ہے۔ پاک فوج کا ترجمان ہے۔ آج کل ہلال کا ایڈیٹر قومی سوچ کا مالک ادیب اور مزاح نگار یوسف عالمگیرین ہے۔ وہ انوکھی سوچ کا آدمی ہے کہ باقاعدہ فوج میں نہیں ہے مگر اپنی نسبت فوج اور قوم کے ساتھ سلامت رکھتا ہے۔ وہ ملٹری سکول آف جہلم سرائے عالمگیر سے پڑھا ہوا ہے۔ فوج میں نہ جا سکا تو فوج کا ترجمان بن گیا۔
میں نے بھی آئی ایس پی آر کو وزٹ کیا ہے۔ یوسف نے بتایا کہ جنرل باجوہ نے کئی عمارتیں بنوائی ہیں۔ وہ بہت خیال رکھنے والے آدمی ہیں۔ دفتر میں ہر شخص کے لئے وہ ہر تعاون کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پازیٹو سرگرمیوں کے لئے بہت دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس پی آر کو پوری طرح اون کیا ہے اور اپنائیت کے ساتھ تمام معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ میری دلچسپی ہلال کے ساتھ ہے۔ اسے جنرل باجوہ کے تعاون کے ساتھ یوسف عالمگیرین نے نمائندہ میگزین بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ادبیت کو بھی سلامت رکھا ہے۔
ریاض ندیم نیازی میرے قبیلے کا آدمی ہے۔ بہترین شاعر اور سرگرم ادبی شخصیت ہے۔ وہ لاہور آتا جاتا رہتا ہے۔ کسی تقریب میں اچانک آپ کی نظر اس پر پڑتی ہے کوئٹہ بلوچستان کے حوالے سے بیگم ثاقبہ رحیم الدین کا بہت چرچا رہا ہے۔ انہوں نے بلاشبہ بہت کام کیا ہے اور کوئٹہ کو قومی ادبی ادھارے میں شامل کر دیا ہے۔ اس کے بعد ریاض ندیم نیازی نے یہ ذمہ داری پوری طرح قبول کی ہے اور لاہور کے ساتھ مسلسل رابطے کی وجہ سے بہت رونق لگائی ہے۔ و ہ گرم ترین علاقے سبی میں رہائش رکھتا ہے۔ قلم قبیلہ کی بنیاد بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے رکھی تھی۔ وہ قلم قبیلہ کی چیئرمین ہیں جبکہ جنرل رحیم الدین اب ریٹائر ہو کر گھر میں بیٹھے بیٹھے مزید بوڑھے ہو گئے ہیں۔
پچھلے دنوں کوئٹہ میں ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد ہوئی۔ لاہور سے صدارت کرنے کے لئے شہناز مزمل گئی ہوئی تھیں۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے شمع جلا کے مشاعرے کا آغاز کیا۔ بہت شاعروں نے کلام سنایا۔ ریاض ندیم نیازی کی شاعری کو بہت سراہا گیا۔ راغب تحسین، سرور جاوید اور صاحب صدر شہناز مزمل کے علاوہ کئی شاعروں نے اپنی شاعری پیش کی۔
بیگم ثاقبہ رحیم الدین کے تازہ شعری مجموعے ”جلتے سمے“ کی تقریب ہوئی۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے صدارت کی جبکہ وہ شاعری کیلئے محمود خان اچکزئی کی طرح کچھ نہیں جانتے۔ مہمان خصوصی جنرل عامر ریاض تھے۔ وہ بھی شاعری کےلئے کچھ نہ جانتے ہونگے۔ اس کا کریڈٹ ثاقبہ رحیم الدین کو جاتا ہے یہ لوگ تقریب میں آئے۔ دوستوں نے مقالات پڑھے۔ آج سے 38 برس پہلے قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ قائم کیا گیا تھا۔ بچوں کیلئے چلڈرن اکیڈمی بھی بنائی گئی تھی۔ ثاقبہ گرلز کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ثاقبہ کی شاعری کیلئے مختلف خواتین و حضرات نے اظہار خیال کیا۔ ثاقبہ کیلئے ایک ضخیم کتاب مرتب کی گئی ہے۔ جس میں کئی لکھاریوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کتاب کی عزت بن گئی کہ بانو قدسیہ، اشفاق احمد اور پروفیسر مقصود جعفری کی تحریریں بھی شامل ہیں۔ برادرم ریاض ندیم کی ثاقبہ رحیم الدین کیلئے یہ ادبی کوشش گراں قدر ہے۔ ہم اسے اور ثاقبہ بی بی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
برادرم نصراللہ بلوچ مجھے ہومیو پیتھی کے ایک ممتاز ڈاکٹر سجاد حسین کے پاس لے گئے۔ ان کے پاس میز پر نامور ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر رکھی ہے۔ انہیں نوبل پرائز ملا جو پاکستان کےلئے ایک افتخار کی طرح ہے مگر کئی لوگوں کو اعتراض تھا ہم اپنے لوگوں کو اعزاز ملنے سے ناراض کیوں ہو جاتے ہیں۔ اب ہماری ایک بیٹی ملالہ یوسف زئی کو نوبل پرائز ملا ہے تو بھی ہم خوش نہیں ہیں۔ جبکہ ملالہ کا معاملہ ڈاکٹر عبدالسلام کے مقابلے میں بہت کمتر اور سیاسی ہے۔
میں ہومیو پیتھی کو طب کا تصوف سمجھتا ہوں یہاں مرض کا علاج نہیں کیا جاتا۔ مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ ہومیو ڈاکٹر کیلئے بڑی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مریض کی شخصیت پر پوری طرح غور و خوض کرے۔ بہت شاندار آدمی ڈاکٹر سجاد حسین سے بہت دلچسپ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے نامور شاعر مرحوم احمد ندیم قاسمی کو یاد کیا کہ وہ بھی ان کے پاس آتے تھے....
ایک دمکتا ذہن بھی ہوں اک سلگتا دل بھی ہوں
فکر کا شاعر ہوں لیکن حسن کا گھائل بھی ہوں

epaper

ای پیپر-دی نیشن