کالا باغ ڈیم: نوائے وقت میں چیئرمین واپڈا کے مضامین پر پیپلزپارٹی کا شور قومی مفادات کے منافی ہے
لاہور (ندیم بسرا) نوائے وقت گروپ نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں قومی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے قومی ریفرنڈم کا انعقاد کرکے اور اب چیئرمین واپڈا ظفر محمود کا 26 قسطوں پر مشتمل مفصل مضمون مسلسل شائع کرکے ایک قومی فریضہ سرانجام دیا ہے۔ چیئرمین واپڈا کے نوائے وقت اور دی نیشن میں قسط وار مضمون کی اشاعت پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کا شوروغوغا بے معنی ہی نہیں‘ قومی ضرورتوں اور مفادات کے بھی منافی ہے کیونکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر نے ملکی معیشت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے ۔’’نوائے وقت‘‘میں قومی ریفرنڈم میں پاکستانی عوام نے کالا باغ ڈیم کے حق میں 99اعشایہ 99فیصد رائے دی تھی۔پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اسمبلی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں قرارداد منظور کی جا چکی ہے ۔اس حوالے سے بتایا گیا ہے۔ گزشتہ3دہائیوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے ، کالا باغ ڈیم کا معاملہ سیاست کی نذر ہو رہا ہے ۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر سے نہ صرف ملک کی خوراک کی ضروریات بُری طرح متاثر ہورہی ہیں بلکہ زرِ مبادلہ کا خطیر حصہ مختلف اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑرہا ہے۔ صورت حال یہی رہی تو 2025ء تک ملکی پیداوار میں 43فیصد تک کمی ہوجائیگی اور تھرمل بجلی کے استعمال کا اضافی بوجھ خزانے پر پڑے گا۔کالا باغ ڈیم سے 3600میگا واٹ بجلی کی دستیابی ہوگی جو بجلی کی انتہائی طلب کا 20فیصد کے لگ بھگ ہوگا اورنہ صرف سستی پن بجلی کی فراہمی میں سالانہ11.4بلین یونٹ کا بہترین اضافہ ہوگا بلکہ نیشنل گرڈ کے ترسیلی نظام کے ذریعے صوبوں کو با آسانی بجلی کی سپلائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سستی بجلی کی فراہمی سے بجلی کے ٹیرف کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔اِس ڈیم کی تکمیل کے بعد آب پاشی نظام ،بجلی کی ترسیل،اور سیلاب کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی مد میں سالانہ 60ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔پاکستان میں ہر برس سیلاب کی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے ۔جس سے کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے ۔پاکستان میں کسی بھی نامساعد حالات کے لئے پانی 45 دنوں کے لئے ذخیرہ کیا جا تا ہے ۔ کالا باغ ڈیم بن جائے تو اس میں 60 دنوں کے لئے پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے ۔یوں ہم اپنی زرعی ضروریات کے لئے 105دنوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بالواسطہ فوائد میں صنعتی ترقی کے علاوہ زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نشیبی علاقوں میں سیلاب کی شدت میں کمی واقع ہو گی ۔ڈیم اور دریائے سندھ،پنجند سنگم کے 300میل کے راستے پر ہونے والی تباہی سے کافی حد تک نجات ملے گی اور سیلاب کو کنٹرول کرنے سے سالانہ ڈیڑہ ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے پاکستان ہر برس سالانہ 200ارب روپے کی خورا ک درآمد کرر ہا ہے۔ کا لا باغ ڈیم کی تعمیر سے 20ملین بیرل تیل کی کھپت کی بچت ہونے کی وجہ سے سالانہ تیل کی درآمد میں بھی کمی ہوگی ۔ کالا باغ ڈیم نہ بنا تو کم لاگت بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے تھرمل بجلی کے ٹیرف کے نظام متاثر ہونگے اور بجلی مہنگی ہوجائے گی جبکہ سیم اور تھور کو کنٹرول کرنا بھی انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ملک میں کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ملک پانی کی شدید قلت کے شکار ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے ۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے آئندہ 10 برس) 2020 ) میں ملک پانی کی شدید قلت کے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے گا ۔ 1951ء میں پاکستان کی 34 ملین آبادی کے لئے 5260 کیوبک میٹر پانی کی دستیابی تھی ،2016ء میں آبادی کا حجم 19 کروڑ ہونے پر پانی کی دستیابی جاری ہے۔1ہزار کیوبک میٹر رہ گئی ہے ،جس میں بدستور 4222کیوبک میٹر کمی واقع ہوگئی ہے۔ آبادی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔2020ء میں آبادی 20 کروڑسے زائد ہونے پر پانی کی دستیابی 877 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ 1 ہزار کیوبک میٹر پر کیپٹا جانے والا ملک پانی کی قلت کا شکار ملک کہلاتا ہے۔ 1951ء میں پانی 5260کیوبک میٹرکی دستیابی تھی جو کم ہو کر 1961ء میں 4159 کیوبک میٹر ہوااور 1971ء میں دسیتابی میں 2883 کیوبک میٹر رہ گئی۔ 1981ء میں2129 کیوبک میٹر ، 1991ء میں پانی کی دستیابی 1611 کیوبک میٹر، 2001ء میں 1250کیوبک میٹر اور 2020ء میں 751 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ کالا باغ ڈیم کو چھ سے سات برس میں مکمل کیا جاسکتا ہے اور اس سے ساٹھ سے نوے پیسے تک فی یونٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔بھارت اگلے 6 برسوں میں دریائے سندھ کے 90 ملین کیوبک فٹ پانی پر قبضہ کرنے کے لئے کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے ۔جو دریائے سندھ کے 80 فیصد پانی کو سٹور کر لے گا۔کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے سندھ کی فصل خریف اور ربیع کو بہت فائدہ پہنچے گا فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا ۔۔اس بارے میں پاکستان انجینئرنگ کانگرس کے سابق صدر انجینئر حسنین احمد کا کہنا تھا اگر آج سے بیس سال قبل کوئی بڑا ڈیم بن جاتا تو اآج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی ۔ سابق ممبر (واٹر ) واپڈا حسنین افضال کئی پلیٹ فارم پر کہہ چکے ہیں آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ اور آبی ذخائر میں مٹی بھر نے کے قدرتی عمل کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے ۔ قیام پاکستان کے و قت فی کس دستیابی 5ہزار 650مکعب میٹر تھی جو کم ہو کر تقریباً ایک ہزار مکعب میٹر کی سطح پر آچکی ہے۔ آبی وسائل کم لاگت پن بجلی پیدا کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں ۔لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینئر نائب صدر عبدالباسط کا کہنا ہے ہمارے ملک میں ایک لاکھ میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت پاکستان میں کالاباغ ڈیم منصوبے کی مخالف لابی کو متحرک رکھنے کیلئے 15 ارب روپے خرچ کرتا ہے کیونکہ انڈیا کو معلوم ہے اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو پاکستان صنعتی وزرعی ترقی کی راہ پرگامزن ہو جائے گا جس سے ملک میں بے روزگاری ومہنگائی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بجلی بحران بھی ختم ہو جائے گا۔