آبی ذخیروں میں مٹی سے پن بجلی کی پیداوار 30 فیصد کم ہوگئی
لاہور (ندیم بسرا) ملک میں بجلی کی بڑھتی مانگ کو پورا کرنے کے لئے بڑے ڈیم کی تعمیروقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے ۔ زیر زمین پانی کم ہونے اور واپڈا کے بڑے پن بجلی کے آبی ذخیروںمیں مٹی آنے سے پن بجلی کی پیداوار میں30 فیصد کمی واقع ہو گئی ہے۔ صورتحال کے پیش نظر زراعت کبلئے ربیع اور خریف کے سیزن میں پانی کا مطلوبہ ہدف پورا نہ ہونے سے صوبوں کے درمیان پانی پر تنازعات بڑھ جائیں گے ۔بتایا گیا ہے کہ فزیبلٹی سٹڈی کے وقت تربیلا ڈیم کی عمر 53 برس لگائی گئی تھی۔ 1974ء کے وقت ڈیم تعمیر ہوا یہ 2027ء کے بعد قابل استعمال نہیں رہیگا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر سے اس کی عمر میں 35 برس کا اضافہ ہوجائیگا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت اس کی عمر 120 برس لگائی گئی تھی، ڈیم آدھی عمر پوری کرچکا ہے۔ وزارت پانی و بجلی حکام کے مطابق تربیلا اور منگلا ڈیم کی عمر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ دونوں ڈیم سے کئی برس تک بجلی پیدا کیا جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے ایک موقع پر دونوں ڈیموں کی بجلی بنانے کی صلاحیت ختم ہوجائیگی اور ڈیم مٹی سے بھر جائیں گے۔ واپڈا کے بڑے پن بجلی کے پراجیکٹس پر سالانہ 200 ملین ایکڑ فٹ مٹی آرہی ہے۔ تربیلا، منگلا اور چشمہ کے آبی ذخائر میں گار بھرنے کے باعث پانی جمع کرنے کی مجموعی استعدادی صلاحیت میںکمی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ دُنیا بھر میں اوسطاً 40 فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں دریائی پانی سے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 10 فیصد ہے۔ ہر سال تقریباً 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر میں جا گرتا ہے۔ زراعت کیلئے ڈیم کی جھیلوں میں ذخیرہ شدہ پانی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ پانی کی کمی ہوئی تو صوبوں کے درمیان ہونے والے پانی کے1991ء کے معاہدے کی بھی خلاف ورزی شروع ہوگی۔ پانی کی کمی واقع ہوئی تو زراعت تباہی کی طرف چلی جائیگی۔