• news
  • image

حکومت کیا ہوتی ہے؟ ایدھی اور عیدی

میں عظیم انسان ایدھی کے لیے لکھنے بیٹھا مگر اسی دن لندن سے علاج کرا کے وزیراعظم نواز شریف واپس آئے۔ بیرون وطن علاج کی پیشکش سچ مچ کے حکمران دلوں کے حکمران ایدھی صاحب نے ٹھکرا دی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں جہاں قائداعظم نے بھی قیام کیا تھا، مسیحی چیف جسٹس اے آر کارنیلیس نے بیرون وطن علاج کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ کیا پاکستان کے ہر شخص کو یہ سہولت حاصل ہے۔ 69 برسوں میں پاکستان کو ایک ہسپتال میسر نہیں جہاں پاکستان کے حکمران علاج کرا سکیں۔ جسٹس کارنیلس ہوٹل کے کمرے میں فوت ہوئے۔ ان کے پاس کوئی کوٹھی کوئی بنگلہ نہ تھا۔ آج کے ججوں کی شاندار زندگی دیکھیں اور سوچیں۔
جب حکمران اپنے لوگوں سے غافل ہو جائیں انہیں پتہ نہ ہو کہ ہمارے ملک میں لوگ بیمار ہیں۔ شہر میں ملک میں لوگ بھوکے ہیں، محروم ہیں، بیمار ہیں اور ان کا علاج ممکن نہیں۔ ہسپتال میں ایک ایک بیڈ پر تین تین لوگ لیٹے ہوئے ہیں۔ نہ دوا ہے نہ دعا ہے۔ لوگ کس قدر مایوس ہیں۔ تو پھر ایدھی جیسے مسیحا صفت محسن لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کچھ بھی نہ ہوتے ہوئے وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ لوگ دم بخود ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد بھی وہ لوگ شرمندہ نہ ہوں گے جو ریاست کے وارث ہیں اور حکومت دولت جو شہرت ان کے پاس ہے انہیں خود بھی اس کا احساس نہیں ہے۔ کیا کسی کو مرنے کے بعد اتنی عزت ملی۔ کراچی میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ پورے پاکستان میں گھروں کے اندر لوگ عورتیں اور بچے رو رہے تھے جیسے ان کا بہت اپنا چلا گیا۔
زندگی میں ائر پورٹ پر ظاہری مفاداتی اور خوشامدی صورتحال کو اپنی عزت سمجھنے والے کتنے دھوکے میں ہیں کہ وہ اسے دھوکہ سمجھتے ہی نہیں۔ ائر پورٹ پر جو لوگ تھے یہی لوگ ہر حکمران کے لیے ہوتے ہیں مگر اس پر غور کریں کہ جہاز سے اترنے کے بعد چند صحافی نواز شریف کے ساتھ تھے۔ یہ ان کا ’’اعزاز‘‘ نہیں ہے۔ محبوب و مرشد مجید نظامی نے شریف فیملی کی طرف سے صدارت کی پیشکش کے لیے کہا تھا کہ میرے لیے نوائے وقت کی ادارت کی کرسی پاکستان کی صدارت کی کرسی سے بہت بڑی ہے۔
بیرون ملک دولت کے انبار لگانے والے حکمران کو اندازہ ہے کہ ایدھی کے جنازے میں لوگوں کی آنکھوں میں جو محبت تھی کوئی دولت اسے خرید نہیں سکتی۔ وہ انمول ہے۔ کہا گیا کہ ایدھی کو محبت کرنے والوں کی آنکھوں کی اور آنسوئوں کی سلامی کی کیفیتوں میں دفن کیا گیا۔ وہ آنکھیں جو نواز شریف کے لیے بچھائی جا رہی تھیں ان میں بھی چمک تھی اور میں نواز شریف کے استقبال کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا۔ اللہ نے انہیں صحت دی۔ میں نے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی تھی۔ یہ دعا اٹھا کے برادرم چودھری غفور ان کے پاس لے گیا۔ انہوں نے بہت محبت سے جواب دیا۔
مگر میں صرف اتنا عرض کر رہا ہوں کہ نواز شریف کو ایدھی کی تدفین کے دن لاہور واپس نہیں آنا چاہیے تھا۔ وہ ایک دن پہلے یا بعد میں آ جاتے۔ انہوں نے شہباز شریف کو ایدھی کے جنازے میں نمائندگی کے لیے کہا تھا۔ شہباز شریف جنازے میں تھے اور وہ لاہور ائر پورٹ پر بھی تھے۔ نواز شریف آ رہے تھے تو کراچی میں آتے؟
سپہ سالار جنرل راحیل شریف کراچی میں ایدھی کے جنازے میں تھے۔ ان کی ایدھی کی میت کو سیلوٹ کرتی ہوئی تصویر بہت اچھی لگی۔ وہ لاہور میں نہ تھے۔ مگر چودھری نثار لاہور میں تھے وہ کراچی نہ گئے تھے۔
وزیراعظم ہائوس میں ایک ہزار آدمی رہ سکتے ہیں۔ عظیم ایدھی نے ایک چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دی۔ اس کمرے میں ایک اینٹ کا اضافہ نہ کیا۔ وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
ایدھی بظاہر حکمران نہ تھے مگر دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ہمارے حکمران دلوں پر حکومت کرنا جانتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی حکومت حکمت سے خالی ہوتی ہے۔ زرداری عمران اور ایسے کئی سیاستدان نہ تھے۔ کوئی سیاستدان اور حکمران سوچ سکتا ہے کہ اسے ایسا جنازہ نصیب ہو گا۔
امام احمد بن حنبلؓ نے کہا تھا کہ جنازہ ثابت کرے گا کہ کون سچا ہے اور کون بڑا ہے۔ اور جنازے نے ثابت کر دیا۔ اس دن شہر کی کسی مسجد میں نماز عصر نہیں ہوئی تھی۔ ایدھی کا جنازہ جس نے دیکھا اس نے کہا کہ ایسا جنازہ کبھی نہیں دیکھا ایسی آنکھیں نہیں دیکھیں جو ایدھی کے لیے رو رہی تھیں۔
میں نے ایدھی کی قبر پر دیر تک کھڑے ایک بھولے بسرے دوست ڈاکٹر قیوم سومرو کو دیکھا۔ مجھے اچھا لگا یہ سوچ کر کہ وہ ’’صدر‘‘ زرداری کی نمائندگی کر رہا تھا۔ صدر ممنون حسین بھی تھے۔ شہباز شریف جنہوں نے لازماً سوچا ہو گا کہ اتنے لوگ کہاں سے نکل کے آ گئے حکمران بھی دنیا سے چلے جائیں گے۔ کیا انہیں ایسی پذیرائی ملے گی؟ کتنے بڑے بڑے حکمران بادشاہ چلے گئے۔ لوگوں کو کسی کا نام بھی یاد نہ ہو گا۔ ایدھی مر کے امر ہو گئے۔ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حکمرانوں کو بھی ایدھی کے راستے پر چلنا چاہیے۔ وہ کیوں نہیں چلتے۔ یونہی مر جاتے ہیں اور گم ہو جاتے ہیں۔
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے
جنرل راحیل شریف ایدھی کے جنازے میں آئے تو لوگوں نے دل سے ان کی محبت میں نعرے لگائے۔ تقریباً سب لوگ کبھی جنرل صاحب سے نہ ملے ہوں گے مگر محبت انہی راتوں پر سفر کرتی ہے جو نظر نہیں آتے۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی تھے۔
نواز شریف کی وطن واپسی پر کروڑوں روپے لگے۔ 350 نشستوں والے طیارے میں صرف 18 لوگ وطن واپس آئے۔ یہ طیارہ پاکستان سے انہیں لینے گیا تھا۔ نواز شریف کے لیے چند لوگ چند وزیر شذیر اور چند صحافی ائر پورٹ گئے تھے۔ نواز شریف کا استقبال ہونا چاہیے۔ وہ صحت یاب ہو کے آئے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ وہ آ ئے ہیں تو کوئی نئی زندگی نیا زمانہ بھی ساتھ لے کے آئے ہیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ بدنصیب قوم بھی بیمار ہے۔ اس کا علاج حکمرانوں اور افسروں کے پاس ہے۔ یہ لوگ چند خوشامدی لوگوں کی زندگی ہی نہ سنوارتے رہیں قوم کی زندگی کو شرمندگی سے بچائیں کہ اب تک نہیں بچا سکے۔ اس بدقسمت زندگی کو ہر قسم کی درندگی سے بھی بچائیں۔ نواز شریف کی صحت یابی اور وطن واپسی کے لیے مریم نواز کو مبارکباد کہ سب سے زیادہ خوشی بیٹی کو ہوئی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن