این جی اوز اور ایدھی مرحوم
پاکستان میں اس وقت ہزاروں این جی اوز یا غیر سرکاری تنظیمیں سماجی شعبہ میں کام کرنے کی دعویدار ہیں حکومت کے پاس ایسی رجسٹرڈ تنظیموں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے یہ این جی اوز تعلیم‘ صحت‘ خواتین کے حقوق‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ ماحول کو بہتر بنانے‘ بچوں کے حقوق اور درجنوں دوسرے سماجی مقاصد کے لئے کام کرنے کا لیبل لگائے ہوئے ہیں‘ ان تنظیموں میں کچھ تو اچھا کام کر رہی ہیں اور لوگ ان کی خدمات کے معترف بھی ہیں لوگ جانتے ہیں کہ ہزاروں تنظیمیں محض کاغذی ہیں وہ زمین پر عوام کی فلاح کا بمشکل کوئی کام کر رہی ہیں۔
اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور دوسرے شہروں میں سرگرم ان تنظیموں کا عملی کام دیکھا جائے تو مایوس کن ہے۔ 80ء کی دہائی میں جب مغربی ملکوں نے غیر سرکاری تنظیموں کا تصور متعارف کرایا تو پاکستان کی بیوروکریسی اور اشرافیہ کے بعض کرتا دھرتا افراد کو سماجی کام کرنے کا شوق چرایا اور انہوں نے فوراً مختلف ناموں سے این جی اووز رجسٹر کرائیں اور پھر مغربی ملکوں سے ڈالروں‘ پاؤنڈوں اور دوسری کرنسیوں میں امداد کی وصولی شروع کر دی۔ بعض این جی اووز تو ملک کے مختلف شہروں کے پوش علاقوں میں دفاتر بنا رکھے ہیں۔ بڑے باخبر لوگوں نے بھی ان تنظیموں کے نام بھی نہیں سنے‘ یہ 90ء کی دہائی کی بات ہے کہ راقم اپنے ایک دوست وفاقی سیکرٹری کے دفتر میں موجود تھا یہ وفاقی سیکرٹری اب اس دنیا میں نہیں ہیں انتہائی ایماندار اور محب وطن آفیسر تھے مرحوم اس وقت وفاقی سیکرٹری برائے سماجی بہبود خصوصی تعلیم تھے۔ میری موجودگی میں انہیں اکنامک آفیئررز ڈویژن کے ایک افسر کا فون آیا اس افسر نے ان سے کسی این جی او کے بارے میں استفسار کیا یہ این جی او اس وقت صوبہ سرحد اور اب خیبرپختون خواں میں کام کر رہی تھی وفاقی وزارت سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم این جی اوز رجسٹرڈکرائی گئی تھی میرے سیکرٹری دوست نے انہیں فون پر کچھ دیر معلومات فراہم کیں اورپھر فون رکھ کر بولے کہ بڑا افسوس ہے میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگے کہ ہمارے پاس ایک این جی او رجسٹرڈ ہے اسے جاپان کی طرف سے صحت کے شعبہ میں فنڈز ملتے ہیں یہ این جی او چند ڈاکٹروں نے بنائی ہے یہ ڈاکٹر خیبرپختونخوا کے کسی علاقے میں آنکھوں کا علاج کر رہے تھے۔ شروع میں تو انہوںنے اچھا کام کیا۔ نادار اور مستحق لوگوں کی آنکھوں کے آپریشن بھی کئے۔ جاپان کی طرف سے اس این جی او کو فنڈز اور گاڑیاں بھی فراہم کی گئیں۔کچھ عرصہ کے بعد یہ این جی اوز لاپتہ ہوگئی۔ جاپانی سفارت خانہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ اس کے کرتا دھرتا افراد کہاں غائب ہوگئے۔
بات طویل ہوگئی ہے۔ میں قارئین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہزاروں این جی اوز جو امریکہ‘ یورپ‘ جاپان‘ کینیڈا‘ سکنڈے نیویا کے ملکوں سے فنڈز لے کر نادار اور مستحق لوگوں کی فلاح اور سماجی شعبہ کی ترقی کے لئے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں میں پاکستانی معاشرے کی فلاح کے لئے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ممکن ہے کچھ این جی اوز کی کرتا دھرتا خواتین اور حضرات اعدادوشمار سے اپنا دفاع کریں لیکن پاکستان کے درویش صفت مخلص کارکن عبدالستار ایدھی سے ایسی خواتین اور حضرات سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ایدھی مرحوم نے دو پیسے کی جیپ خرچ سے ایک پیسہ بچا کر غریبوں اور ناداروں کی مدد شروع کی۔1951ء میں کراچی میں اپنی جمع پونجی سے ایک ڈسپنسری قائم کی۔ اس قدر معمولی فنڈز سے انہوں نے لوگوں کی خدمت کا آغاز کیا اور بتدریج ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی این جی او بنا ڈالی۔ اطلاعات کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس کروڑوں ڈالر کے فنڈز اور اثاثے ہیں۔اس کے باوجود ان کا اور ان کے خاندان والوں کا طرز زندگی انتہائی سادہ رہا۔ انہوں نے لوگوں کی طرف سے ملنے والے عطیات کو جس دیانت داری اور ایمانداری سے استعمال کیا اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ وہ سماجی خدمت کے منصوبوں کیلئے پاکستانیوں سے بھیک مانگ کر ہی فنڈز اکٹھے کر لیتے تھے۔ ایدھی صاحب نے کوئی قیمتی گاڑی خریدی نہ کسی بنگلے میں منتقل ہوئے۔ اپنی ایمبولینس میں سفر کرتے رہے۔ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قائم کی۔ جو پاکستانی سینکڑوں شہروں میں موجود ہے۔ لاشیں اٹھانے انہیں ہسپتالوں میں منتقل کرنے اور پھر ہسپتالوں سے گھروں تک پہنچا رہی ہے۔ پوری زندگی نادار‘ بے سہارا اور لاوارث لوگوں کی خدمت کرکے رخصت ہوگئے۔ یورپ اور دنیا کے کئی ملکوں نے عبدالستار ایدھی کو ان کی خدمت پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ایک بیان میں عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ عالمی پریس نے انہیں اس عہد کا ایک SAINT ولی قرار دیا ہے۔ جس شان سے ان کی تدفین ہوئی ہے اس کی بھی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لوگوں کی خدمت کرنے والے دوسرے اداروں اور تنظیموں کو عبدالستار ایدھی کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا چاہیے۔ انسانیت کی بے لوث خدمت کرنے والوں کو جو عزت ملتی ہے اور ان کی جو شان ہوتی ہے اس کی مثال ایدھی کا سفر آخرت ہے۔