ایک سال میں تیل اور گیس کے 84 نئے کنوئوں کی کھدائی کا ریکارڈ قائم۔
اس قدر تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد تو ملک میںترقی و خوشحالی قلانچیں بھرتی نظر آنی چاہیے تھی مگر ہم ہنوز توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔ کیا عوام یہ قیاس کرلیں کہ کسی شہزادے نے تیل و گیس کا کاروبار شروع کررکھا ہے۔ 84 نئے کنوئوں کی کھدائی کے بعد تیل کی نہریں بہنا شروع ہوجانی تھیں لیکن حکومت نے ابھی تک جان لیوا جی ایس ٹی لگا کر اس کی قیمت آسمان تک پہنچا رکھی ہے۔ تیل و گیس کے کنوئوں بارے تو لگتا ہے کسی نے خواب ہی دیکھا ہے۔ سندھ سے منظور وسان ہر مہینے کھلی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی خواب دیکھتے تھے۔ وزارت جانے کے بعد وہ بھی سو گئے ہیں۔ ان کا خواب کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہماری حکومت تو لمبی تان کر سوئی ہوئی ہے، اس کا سونا بھی مرنے کی مثل ہے۔ عوام شور کریں، احتجاج کریں، جلائو گھیرائو کریں، اس نے آنکھ نہیں کھولنی۔ شاعر نے خواب غفلت کے بارے کچھ یوں کہا تھا… ؎
اے شور قیامت ہم سوئے ہی نہ رہ جاویں
اس راہ سے گزرو تو ہم کو بھی جگا جانا
جو حکومت عوام کے شور پر آنکھ نہیں کھولتی وہ شور قیامت پر بھی غفلت کی ردا لپیٹے رکھے گی۔ حکومت تیل و گیس کے 84 نئے کنوئوں کو استعمال میں لاکر قوم کو سکھ کا سانس لینے دے۔
٭…٭…٭…٭
بھارت: گھر سے نکالنے پر روسی بہو نے ساس کیخلاف دھرنا دیدیا۔
روسی خاتون کہتی ہے… ساڈا حق ایتھے رکھ
طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے کی گونج چار دانگ عالم سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان میں ہی سرکاری ملازمین، وکلاء اور عوام اپنے حقوق کیلئے سرکار کے سامنے بڑی شدت کیساتھ ’’متھا‘‘ ٹیک کر کہتے ہیں… ؎
جینا ہوگا مرنا ہوگا
دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا
اور وہ کسی حد تک دھرنا دیکر اپنے مطالبات منظور بھی کروا لیتے ہیں۔ رمضان المبارک سے قبل نرسوں اور ینگ ڈاکٹرز نے دھرنا دیکر اپنے مطالبات منوائے تھے۔ اب دیکھا دیکھی دنیا بھر میں مطالبات کی منظوری کے لئے دھرنا شروع ہوگیا ہے۔ ہر ساس پہلے بہو ہوتی ہے، اس نے بطور بہو جو ظلم برداشت کئے ہوتے ہیں ان کا بدلہ ساس بن کر لینا شروع کردیتی ہے۔ بہو اور ساس کے مابین اگر ہم آہنگی پیدا ہوجائے تو گھر جنت بن جاتا ہے لیکن اگر دونوں میں ’’ٹھن‘‘ جائے تو پھر دنیا کے اندر ہی ایک جہنم دیکھی جاسکتی ہے۔ بہوئوں کو لڑائی جھگڑے کی بجائے گھروں کے دروازوں پر دھرنا دیکر پورے محلے میں ساس کے نام کو روشن کرنا چاہئے، اس سے یقینی طور پر ساس سدھر جائیگی۔ روسی بہو اگر بھارتی ساس کو مات دینے میں کامیاب ہوسکتی ہے تو پھر ’’بہو کا دھرنا‘‘ باقاعدہ ایک فیشن بن جائیگا اور دیکھا دیکھی یہ سلسلہ ہر طرف شروع ہوجائیگا۔
اٹلی کے گرلز سکول نے اونچی ایڑی والی جوتی پہننے پر پابندی لگادی۔
اونچی ایڑی والی جوتی پہننا ایک شغل ہے۔ اس سے نہ صرف خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قد کاٹھ بھی بلند نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں تو چھوٹے اور بڑے قد والی سبھی لڑکیاں بڑی خوشی سے اسکا استعمال کرتی ہیں لیکن ایڑی والی جوتی پہن کر آج تک دڑکی لگاتے کسی کو نہیں دیکھا۔ مزا تو تب ہے کہ اس جوتی کے ساتھ دوڑ کا بھی کوئی مقابلہ کیا جائے پھر پتہ چلے گا کون کتنے پانی میں ہے۔ آج تک کسی فربہ خاتون کو بڑی ہیل پہنے نہیں دیکھا۔ دنیا میں تماشے تو بہت دیکھے ہیں لیکن ہیل دوڑ والا تماشا ابھی تک نہیں دیکھا۔ اٹلی کے سکول کی انتظامیہ نے جس بنیاد پر پابندی عائد کی ہے، وہ بھی بجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے کے دوران اچانک دوڑنا پڑتا ہے اور لڑکیاں ہیل پہن کر دوڑ نہیں سکتیں۔ ان کی بات تو درست ہے، اچانک خطرے کی گھنٹی بجے تو انسان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ ویسے جب انسان کی جان کو خطرہ ہو تب جوتے سنبھالنے کا خیال کسے آتا ہے۔ زلزلہ آنے پر انسان کا نہ صرف سانس پھولتا ہے بلکہ اس کے حواس بھی کام نہیں کرتے، اسے جوتی پہننا کیسے یاد رہ سکتا ہے۔ بالفرض اگر راستے میں گر بھی پڑے تو کوئی اچنبھے والی بات نہیں کیونکہ بقول عظیم بیگ عظیم…؎
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
٭…٭…٭…٭
سرکاری نصابی کتب مارکیٹ میں فروخت ہونے کا انکشاف۔
تعلیم کا پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے، حکومت کی مفت کتابوں کی پالیسی کے تحت اگر کچھ طلبا سکول کی تعلیم کی طرف متوجہ ہورہے تھے تو محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتائوں کی غفلت کے باعث کتابیں مارکیٹ میں فروخت ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت نے پہلے سکول پرائیویٹ کئے، اب کتابیں بھی بچوں کو خریدنی پڑیں گی تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ویسے محکمہ تعلیم کی رٹ چیلنج ہوچکی ہے۔ وزیر تعلیم پنجاب خالی دعوئوں سے خادم پنجاب کو ٹرخانے کی پالیسی پر گامزن ہیں حالانکہ انہیں علم نہیں کہ خادم پنجاب کا نام بھی شہباز شریف ہے، وہ ہر محکمے کی تین چار محکموں سے رپورٹ لیتے ہیں۔ اگر وہ صرف وزیر صاحب کی ’’یس سر‘‘ پر یقین کرلیتے تو پھر پنجاب کی کارکردگی سندھ سے بھی بدتر ہوتی لیکن وہ اپنے سٹاف کیلئے محکمے کے سیکرٹری اور ڈی جی سے بھی رپورٹ لیتے ہیں۔ عید کی چھٹیاں گزر گئی ہیں، اب پنجاب بھر میں بڑے شہروں میں پرائیویٹ سکولز کی انتظامیہ نے سمر کیمپ کے نام پر بچوں کو پھر گرمی میں گرم کرنا ہے بلکہ انکی اپنی جیبیں بھی گرم ہوں گی اور سٹاف بے چارہ جن کو سرکاری اساتذہ کے محض تیسرے حصے کے برابر تنخواہیںملتی ہیں، وہ مفت میں خوار ہوگا۔ ابھی میدان سجنے والا ہے، محکمہ تعلیم بمقابلہ پرائیویٹ سکولز۔ دیکھیں وزیر تعلیم اس دنگل کے فاتح بنتے ہیں یا پھر سکولز والے بازی لے جاتے ہیں۔ بس چند دن انتظار کی ضرورت ہے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭