خورشید شاہ کی چیئرمین واپڈا پر بے جا تنقید
کہتے ہیں آمد آفتاب دلیل آفتاب ہوتی ہے، یہ کیسا خورشید ہے جس کی ہر دلیل بودی ہے، موقوق منطق ہے اور سوچ اپنے محیط سے بھی باہر نہیں نکل سکتی۔قبلہ شاہ صاحب کا شمار بھی ان وڈیروں میں ہوتا ہے جن کی لاٹری نکلی ہے، جنہوں نے بخت نصر کی طرح ایک لمبی جست لگائی ہے۔ وقت کے خارزار سے نکل کر سیم و زر کے گلزار میں نکل آئے ہیں۔ اس وقت ان کا طمطراق، ہم ہمہ اور دندنا، دیدنی ہے۔ حکومت ان کی خوشنودی کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ پپو ان کے گھٹنے چھو کر پاس ہوتا ہے۔ ڈار کی شاہ جی، شاہ جی کہتے ہوئے زبان نہیں تھکتی اور وہ خواجگان جنہوں نے برہنہ گفتاری کو نئے معانی اور مفاہیم دیئے ہیں، ان کے سامنے دست بستہ صم بکم بنے بیٹھے ہیں۔ ان کا ہر بیان ذُومعنی نہیں بلکہ اپنے اندر سو معنی رکھتا ہے۔ ایک ثقہ سیاست دان کی طرح ایک جملہ کہتے ہیں اور پھر اسی سانس میں اس کی تردید بھی کردیتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح یہ دوسرے سیاست دان ہیں جنہیں اس فن پر عبور حاصل ہے۔
لیکن اس وقت بات سیاست یا سیادت کی نہیں بلکہ اس ذخیرئہ آب کی ہورہی ہے جس سے اس ملک کا مستقبل جڑا ہوا ہے۔ جو قوم کی امیدوں، امنگوں اور آرزوئوں کا محور و مرکز ہے۔ کہتے ہیں مستقبل کی جنگیں پانی پر ہوں گی، شاہ صاحب نے حال ہی میں طبل جنگ بجا دیا ہے، تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں، کچھ ایسا تاثر پیدا کررہے ہیں کہ ڈیم بننے سے آسمان سر پر آن گرے گا، زمین پھٹ جائے گی، ہوائیں چلنا بند ہوجائیں گی اور سورج ماتمی لباس پہن کر روشنی سے محروم ہو جائے گا۔ مغرب میں یہودیوں نے ایک قانون پاس کرایا ہے جس کی رُو سے Holocaust کا تنقیدی جائزہ لینا جرم ہے۔ محترم شاہ صاحب بھی کالاباغ کے سلسلے میں کچھ ایسا ہی قانون چاہتے ہیں۔ جمہوریت کا نام لیتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھکتی۔ اس کی خاطرضرورت پڑنے پر انہوں نے ہمہ مقتدر طاقتوں سے ٹکرانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ جرأت اظہار جمہوریت کا جزو لاینفک ہے۔ کسی شہری کے مثبت خیالات پر نہ تو قدغن لگائی جاسکتی ہے اور نہ ناروا پابندیاں مسلط کی جاسکتی ہیں۔ دلیل کا دلیل سے جواب دینا چاہئے۔ یہی روح جمہوریت ہے اور مہذب دنیا کا طریقہ ہے۔ کسی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانے کو جمہوریت نہیں کہتے۔ بیس کروڑ آبادی کے تناظر میں گو مخالفین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن ’’حق نمک‘‘ ادا کرنے والے بات کرنے کا ڈھنگ اور گُر بھی جانتے ہیں۔ خانوادہ سرحدی گاندھی جی ہی جی میں خوش ہورہا ہے کہ انہیں بولنے کی زحمت گوارا نہیں کرنا پڑی۔ جب اتنا بڑا وکیل کھڑا ہوگیا ہے تو انہیں اپنے Vocal Chords پر زور ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
کالاباغ ڈیم کی اہمیت، افادیت اور فوری ضرورت پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ سب لٹریچر کو جمع کیا جائے تو کئی ضخیم کتابیں بنتی ہیں۔ چیئرمین واپڈا ظفر محمود صاحب نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا ہے اور سارے مسئلے کا حکیمانہ انداز میں جائزہ لیا ہے۔ گو سابق سربراہان محکمہ بھی اس کی تعمیر پر زور دیتے رہے ہیں لیکن اس قدر گہرائی اور گیرائی میں کوئی نہیں گیا۔ یہ مقالہ انگریزی اور اردو میں ملک کے سب اخباروں میں قسط وار چھپا ہے۔ اس تسلسل اور تواتر نے غالباً شاہ صاحب کو پریشان کیا ہے۔ اصل پریشانی ہندوستان کو ہے۔ ’’را‘‘ خاصی مضطرب اور مضمحل دکھائی دیتی ہے۔ یہ کہنا کہ شاہ صاحب بھی کسی کے اشارے پر مخالفت کررہے ہیں، درست نہ ہوگا۔ لیکن ان کی سوچ کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی قوم کے لئے حصول آب و بجلی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ کالا باغ ڈیم کا بن جانا ہندوستانی ڈپلومیسی کی موت ہوگی۔ بم اور توپیں وہ کام نہیں کرسکتیں جو معیشت میں دراڑیں ڈالنے اور قومی اتحاد و یگانگت کو کھوکھلا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
ایک بات کا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے لیکن موقع کی مناسبت سے اس کا اعادہ ضروری ہے۔ میں 1986ء میں رحیم یار خان میں ڈپٹی کمشنر تھا، ابوظہبی کے حکمران شیخ زید تشریف لائے۔ محل میں کھانے کے دوران پاکستان کے دریائوں کا ذکر چھڑ گیا۔ بولے: دریائوں کا منبع کہاں ہے؟ عرض کیا ہمالہ! پوچھنے لگے: پانی گرتا کہاں ہے؟ بحیرئہ عرب! کتنا پانی ضائع ہوتا ہے؟ عرض کیا: موسم برسات میں بہت سا پانی سمندر میں جا گرتا ہے۔ انہوں نے تاسف بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔
MY GOD- WHAT A CLOSSAL WASTAGE OF MOST PRECIOUS THING ON EARTH.
مجھے پانی دیں، اس کے بدلے میں پاکستان کو تیل دوں گا۔ ہندوستان اس قسم کی پیشکش کرچکا ہے لیکن میں نے بوجہ انکار کردیا ہے۔ تاسف سے میرا سر جھک گیا۔ اس ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔ پانی ہے لیکن دھرتی پیاسی ہے۔ سونے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں لیکن ہمارا مقدر سو رہا ہے۔ تھر میں کوئلہ ہے جس سے ہم نے آج تک صرف اپنا منہ کالا کیا ہے۔ یہ بات مجھے ایک سوئیس نے ویَ ویَ جھیل کی پہاڑی چوٹی پر بتائی تھی۔ میں نے کہا تمہارا ملک بڑا خوبصورت ہے۔ بولا: لو! تمہارا ملک سوئٹزرلینڈ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ 28 ہزار فٹ اونچے پہاڑ، چوٹیاں جن کی ثریا سے ہیں سرگرم سخن:
VIRGIN SNOWS UNTOUCHED BY HUMAN HAND, RUGGED BEAUTY AND WHAT NOT!
میں نے شرم سے اپنا سر جھکا لیا۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
خورشید شاہ صاحب کا استدلال ہے کہ ظفر محمود واپڈا کے سرکاری ملازم ہیں لہٰذا انہیں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ کونسے آئین یا قانون میں لکھا ہوا ہے کہ سرکاری ملازم اپنا Honest Opinion نہیں دے سکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قبلہ شاہ صاحب نے بھی واپڈا کی ملازمت کی ہے، انہیں بھی نہیں بولنا چاہئے۔ ہم محنت کی عظمت کے قائل ہیں، ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ یہ کیا تھے، کونسا کام تفویض کیا گیا تھا …ع
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے!
ہمیں محترم شاہ صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے۔ آلِ رسول ہیں، سید کے لغوی معنی ہی سردار کے ہیں، ہماری دعا ہے کہ یہ مزید ترقی کریں۔ یوسف رضا گیلانی کی طرح وزیراعظم بنیں، نہیں تو قائم علی شاہ ایک دھکے کی مار ہیں۔ لیکن خدارا اپنی سوچ بدلیں! بیس کروڑ بھوکے، ننگے، بلکتے ہوئے عوام کی خوشحالی ان ذخائر آب سے جڑی ہوئی ہے۔ اور! ایک بات نوٹ کرلیں! خدا آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ نے ہاتھ جوڑ کر ڈیم بنانے کی اپیل کرنی ہے۔ لیکن اس وقت تک… ع
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے!