تہمینہ درانی کا اعزاز اور اعزاز کی شاعری
جب کاشف نے تہمینہ درانی سے پوچھا کہ کوئی لیڈر پاکستان میں ہے؟ تو انہوں نے کمرے میں رکھی ہوئی عظیم فلاحی شخصیت عبدالستار ایدھی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ بات بھی ہو رہی ہے جب ایدھی صاحب ان دیکھے جہانوں کی طرف جا چکے ہیں۔ ایدھی یاد آ رہا ہے جب وہ نہیں ہے مگر ہے۔ اس طرح پاکستان کے کسی حکمران یا سیاستدان کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ کیا وہ شہباز شریف کو مشورہ دیں گی کہ وہ پنجاب کے لئے ایدھی بن جائیں۔ ایدھی سٹائل کی بات بھی تہمینہ نے کی۔ مگر اب تو ملک میں شریف سٹائل چل رہا ہے۔ اب شریف کے معانی ہی بدل گئے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف تو تھے ہی۔ حمزہ شریف اور مریم شریف بھی میدان سیاست میں ہیں۔ اور جنرل راحیل شریف بھی پوری طرح موجود ہیں۔ بہت مقبول اور محبوب ہیں مگر لوگ ابھی تک ’’کسی‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی ’’نجات دہندہ‘‘ مگر شاید نجات پاکستانیوں کے نصیب میں نہیں؟ کیا انتظار کرنا اور بے قرار ہونا ایک ہی کیفیت کے نام ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف تو بھائی ہیں اور جنرل راحیل شریف کیا ہیں۔ شہر میں ان کے لئے بینرز لگ گئے۔ مگر وہ تو وہی کے وہی ہیں بہرحال ہم ان کے لئے دعاگو ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
میں کسی اور طرف نکل گیا ہوں۔ تہمینہ درانی نے کہا کہ شہباز شریف سٹیٹس کو کے خلاف ہیں۔
ماحول اور منظر نامہ بدلے گا۔ شہباز شریف کچھ نہ کچھ بدلنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے میٹرو بس بنائی۔ جو روپیہ اس پر لگا اس سے کئی سکول اور ’’کئی‘‘ سے بھی زیادہ ہسپتال بنائے جا سکتے تھے۔ کوئی آدمی اپنے بچے کا علاج کرا کے یا اس کے سکول جا کے پیدل اپنے بچے کی انگلی پکڑ کے خوشی خوشی پیدل اپنے گھر کو واپس آ سکتا ہے۔ وہ کسی تانگے میں شہزادوں کی طرح بیٹھ کے جا سکتا ہے۔ آج کل تانگے کیوں ختم ہو گئے۔ مدت ہوئی میں نے گھوڑے نہیں دیکھے؟ جہاں چیزیں سستی ملتی ہوں کتنی دور ہو لوگ پیدل چل کر وہاں جا سکتے ہیں۔
تہمینہ درانی کہتی ہیں کہ یہ تو شہباز شریف کا وژن ہے۔ مگر حکمران تو ٹیلی وژن کے قائل ہیں بلکہ گھائل ہیں۔ تہمینہ کے کمرے میں سب سے زیادہ ایدھی کی تصویریں ہیں اور اس نے یہ بتا کے حیران کر دیا کہ وہ دس مرلے کے گھر میں رہتی ہیں۔ تو یہاں کبھی کبھی شہباز شریف بھی آ کے رہتے ہوں گے۔ انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ دس مرلے کا گھر بہت کافی ہوتا ہے تو انہوں نے کیا سوچا؟ کئی کنالوں پر مشتمل گھر والے لوگوں کو پکڑو اور وہاں دس دس مرلے کے گھر بنائو۔
مال روڈ پر گورنر ہائوس سو سے زیادہ کنالوں پر مشتمل ہو گا اور یہاں صرف ایک آدمی رہتا ہے۔ آج کل یہاں سینئر سیاستدان اور بہت اچھے انسان رفیق رجوانہ رہتے ہیں۔ وہ گورنر ہیں مگر لگتے نہیں۔ یہاں میرے بہت جگری یار تخلیقی شخصیت کے مالک زبردست بات کرنے والے اور چمکدار برجستہ جملہ کہنے والے مشہود شورش بھی ہیں۔ وہ عظیم شاعر ادیب اور خطیب غالباً آخری خطیب شورش کاشمیری کے بیٹے ہیں اپنے والد کے سینکڑوں زندہ تر جملے یاد ہیں۔ شورش جملے سے جملے کا کام لیتے تھے۔ وہ اہل قلم قبیلے کے آخری حملہ آور خطیب کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
تہمینہ نے شہباز شریف کے لئے جو جملے کہے وہ ہمیشہ خوش آئند اور پازیٹو ہیں۔ اس نے کہا شہباز شریف کا اپنے بھائی کے ساتھ وفا حیا کا رشتہ ہے۔ وہ کبھی اپنے بھائی سے بگاڑ کر کچھ حاصل کرنا نہیں چاہیں گے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے بھائی کا متبادل نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے بھائی کی خواہشات کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ میں نے ایک جگہ تہمینہ درانی کو تہمینہ دولتانہ لکھ دیا تھا پھر کاٹ دیا۔
تہمینہ کا پہلا شوہر بھی وزیر اعلیٰ تھا۔ غلام مصطفی کھر کے حوالے سے نہ کوئی سوال ہوا نہ اس نے کوئی بات کی۔ اس نے کھر صاحب کے لئے بہت بڑی کتاب لکھی ہے۔ وہ کتاب کھر صاحب کے حق میں نہیں ہے تو ان کے خلاف بھی نہیں ہے۔ شاید وہ شہباز شریف کے حوالے سے بھی کوئی کتاب لکھیں۔ وہ ان سے الگ ہوں تو کتاب لکھیں گی۔ اگر انہوں نے کوئی کتاب لکھی بھی تو شہباز شریف بھی اسے اطمینان سے پڑھ سکیں گے۔ کچھ کتابیں ہوتی ہیں جو خواتین کے لئے ہوتی ہیں مگر یہ جملہ بھی ساتھ ہوتا ہے کہ مرد بھی یہ کتاب پڑھ سکتے ہیں۔
ایک بات تہمینہ نے کی اور غالباً ٹھیک کی کہ شہباز شریف کو جنوبی پنجاب کی طرف توجہ دینا چاہئے۔
تہمینہ یقیناً بڑی عمر کی عورت ہے مگر وہ بہت چھوٹی عمر کی عورت لگ رہی تھی۔ تہمینہ میں دونوں عورتیں موجود ہیں۔ ویسے ایک عورت کے اندر ایک ہزار عورتیں ہوتی ہیں۔ ایک دوست کالم نگار اچھی شاعرہ اچھی گفتگو کرنے والی صوفیہ بیدار نے بتایا کہ تہمینہ 60برس سے اوپر کی ہو گئی ہو گی۔ اسے دیکھا تو یقین نہ آیا۔ اسے سنا تو یقین آ گیا کہ اس نے بہت سلیقے سے بڑی جرات کے ساتھ بات کی۔
وہ طرز حکومت میں شفافیت کی قائل ہے۔ اس نے بار بار شہبا زشریف کے وژن کی بات کی مگر اس کی تشریح نہ کی۔ یہ انٹرویو کسی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا ہوا انٹرویو لگتا تھا۔ انگریزی میں اسے پلانٹڈ کہا جا سکتا ہے۔ ایک جملہ بہت خوبصورت اس کی زبان سے ادا ہوا۔ سب سے بڑا گلہ یہ ہے جو اپنے آپ سے ہو۔ کرپشن کے لئے بھی کہا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں کرپشن نہیں تھی۔ اب ’’زیادہ‘‘ جمہوریت ہے۔ جمہوریت کا شور زیادہ ہے۔ بہت اہم بات یہ کہ تہمینہ نے کہا وزیراعظم کو احتساب سے نہیں ڈرنا چاہئے۔
روشنی کی مثال جیسی کتاب کی اشاعت کا اہتمام مرحوم اعزاز احمد آذر کے فرزند شاعر حسن اعزاز نے کیا ہے۔ روشنی کی مثال کا بے مثال دیباچہ آرٹسٹ مزاج افتخار مجاز نے لکھا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ برادرم اعزاز احمد آذر کی غالباً آخری تقریب میری صدارت میں ہوئی تھی۔ یہ تقریب حسن اعزاز کے لئے بھی تھی۔ جب وہ شاعری سنا رہا تھا تو میں نے اعزاز آذر کی آنکھوں میں چمک دیکھی تھی۔ ایک بہت بلند مرتبہ جملہ افتخار مجاز نے اعزاز آذر کے لئے لکھا ہے ’’برادرم اعزاز احمد آذر کی یہ بات پسندیدہ دکھائی دیتی ہے کہ ’’نعت کہنا اتنا ہی مشکل کام ہے جتنا نماز پڑھنا۔‘‘