مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے بولڈ فیصلے کرنا ہونگے، خواہ پاپولر نہ ہوں: شجاعت
لاہور (خبر نگار) (ق) لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور حکومت پاکستان کے کمزور رویہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ‘‘ اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ جیسے روایتی بیانات سے آگے بڑھ کر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق مسئلہ کے حل کیلئے بولڈ اور جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ اپنی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ترکی میں عوامی ردعمل پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ترکی میں طیب اردگان کی مسلسل بہتر کارکردگی اور اس کے نتیجہ میں غریبوں کی خوشحالی اور معاشی مضبوطی رنگ لائی۔ 2003ء میں جب طیب اردگان آئے تو ترکی 25 بلین ڈالر کا مقروض تھا، اپنی محنت اور کوشش سے انہوں نے ترکی کے غریبوں کو خوشحالی دی، اکانومی کو بہتر، آئی ایم ایف کو فارغ کیا بلکہ ترکی اب آئی ایم ایف کو قرضہ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی دعوت پر دورئہ بھارت کے دوران میرے ساتھ ملاقات میں انہوں نے بھی کہا تھا مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے ہمیں بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے خواہ وہ فیصلے عوام میں پاپولر نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری پر ہمارے حکمران گہری نیند سو رہے ہیں جبکہ چیئرمین کشمیر کمیٹی خراٹے لے رہے ہیں اور کشمیر کاز پر کام کرنے کی بجائے وہ پانامہ کے پاجامہ کے پیچھے پڑے ہیں، حکومت کو چاہئے وہ اسلام آباد میں کھانے پینے میں مصروف وزراء کو پوری دنیا میں کشمیر کاز اور بھارت کے مظالم پر لابنگ کیلئے بھیجیں شاید کوئی ہماری بات سن لے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہا کہ ہماری اپوزیشن کی مفاد اور اناپرستی کی وجہ سے حکومت چل رہی ہے، پی این اے کے نو ستارے حکومت کے خلاف کامیاب ہوئے تھے تو اب بھی اتحاد سے کامیابی مل سکتی ہے۔ نوازشریف کی بیماری کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا وہ ماشاء اللہ صحت یاب ہو گئے ان کیلئے گلدستہ بھیجا تھا اور خیریت بھی دریافت کی تھی۔ انہوں نے کہا الیکشن کمشن کیلئے صاف اور باکردار ارکان نہ چنے گئے اور اپوزیشن جماعتیں ایک نہ ہوئیں تو آئندہ الیکشن میں ایک بار پھر 2013ء جیسی دھاندلی ہو گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے حالات مختلف ہیں پاکستان میں فوج کے ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے کے حالات نہیں‘ اپوزیشن کو ذاتی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو تر جیح دینا ہو گی، اپوزیشن ایک ہوجائے تو حکومت کو صحیح راستے پر لایا جا سکتا ہے‘ لوٹی دولت مارکٹائی سے واپس نہیں آئیگی اس کیلئے ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔