کیا کوئی یہ اطلاع بنی گالا بھی پہنچائے گا؟
میاں نوازشریف لندن سے علاج معالجہ کے بعد واپس آ گئے اور آ گئی ان کی جواب داریاں بھی۔ ایئرپورٹ پر بہت سے اخبار نویس بھی موجود تھے۔ تم سلامت رہو ہزار برس اور ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ کیا مرزاغالب اپنی دعا کے بے معنی پن سے آگاہ نہیں تھے؟ مرزا غالب کو چھوڑیں، ان کے ممدوح بہادر شاہ ظفرتک جانتے تھے کہ یہ کیا لغویات ہیں۔ پھر بھی ایسی باتیں بھلی لگتی ہیں۔ 1972ءمیں خیر بخش مری بھٹو کے ساتھ چین کے دورے پر گئے۔ ایئرپورٹ پر کامریڈ Long Live mao کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ خیر بخش مری ایک نعرہ لگانے والے کے پاس گئے اور پوچھنے لگے جب تم سرے سے خدا کو مانتے ہی نہیں، پھر اس سے ماﺅ کی درازی عمر کی دعا کیوں مانگ رہے ہو؟ جواب میں وہ بیچارہ نہ کہہ سکا۔ ہم آسمانی خدا سے تھوڑی دعا مانگ رہے ہیں، ہم تو اپنے زمینی خدا کے آگے نمبر ٹانک رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک زمینی خدا کے لئے پی آئی اے کا خصوصی بوئنگ 777 خالی لندن بھجوایا گیا۔ سنا ہے شاہی ضرورت کے مطابق جہاز میں کتروبیونت بھی کی گئی۔ بادشاہوں کے آرام کا خیال رکھنا اپنے آرام کا باعث بنتا ہے اس سفری خرچ اخراجات کی ذیل میں کوئی تیس کروڑ بتاتا ہے اور کوئی چالیس کروڑ۔ بہرحال معاملہ کروڑوں میں ہے۔ جہاز لاہور واپس پہنچ گیا۔ لاہور سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ کے مالک جو اردو خبار میں کالم بھی لکھتے ہیں، نے لکھا: ”میں ان صحافیوں میں شامل تھا جنہیں شرف ملاقات بخشا گیا۔ گفتگو اگرچہ مختصر تھی لیکن بامقصد تھی،، اچھی بات ہے، بندے کو اپنا مقصد ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ رائے ونڈ جانے کے لئے میاں صاحب ہیلی کاپٹر کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ایک شوخ سا سوال درمیان میں آن ٹپکا۔ یہ سوال ان کی پہلی جواب داری تھی۔ ”حضور پانامہ لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کے دھرنے بارے آپ کی کیا رائے ہے؟“ انہوں نے جھٹ جواب دیا“ دھرنے مسائل کا حل نہیں ہوتے،، اب وہ ہیلی کاپٹر کے اندر بیٹھ کر چکے تھے۔ اگلا سوال پوچھا نہیں جا سکتا تھا کہ حضور! یہاں تک نوبت ہی کیوں آنے دی گئی، برطانیہ میں ایسی ہی صورتحال میں وزیراعظم نے مستعفی ہونے پر دیر نہیں لگائی۔ ایک تصویر میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے اقتدار سے چند لمحوں پہلے سکول کے بچوں کے ساتھ خوشگوار موڈ میں ہیں۔ دوسری تصویر میں بیوی بچوں اور گھریلو مال اسباب کے ساتھ 10- ڈاﺅننگ سٹریٹ سے نکل رہے ہیں۔ کوئی شام غریباں کا منظر نامہ نہیں۔ برطانوی وزیراعظم قانون، ضابطے اور روایات کا پابند ہوتا ہے۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ دیکھ بھال کر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمارا معاملہ اور ہے۔ وزیراعظم نے جو کہہ دیا قانون، جو کر لیا وہی ضابطہ۔ پھر صوابدیدی اختیارات کی لمبی فہرست الگ، بھلے سے آڈیٹر جنرل اعتراض لگاتا پھرے۔ اتنے اختیارات سے دستبردار ہونا کوئی آسان کام نہیں۔ ہر موسم میں نئے پھول کھلتے ہیں اور ہر الیکشن میں کچھ نئے چہرے سامنے آتے ہیں۔ تازہ بلدیاتی الیکشن میں گوجرانوالہ سے ایک نیا چہرہ یحییٰ بٹ دکھائی دیا ہے۔ شہری سیاست میں ایک خوش آئند اضافہ ہے۔ وہ پچھلے دنوں ”کھوتا ریڑھی“ پر احتجاج کر رہا تھا کہ بلدیاتی الیکشن کو کئی ماہ گزر گئے ہیں لیکن ہمیں اختیارات نہیں دیئے جا رہے۔ ایک مقامی جنرل کونسلر بابا لیاقت بھی اختیارات نہ ملنے پر ایک ٹاور پر جا چڑھا تھا۔ وہ خودکشی کا پروگرام بنائے ہوئے تھا۔ چھ گھنٹے کی منت سماجت کے بعد اس کے رشتہ دار اور محلے دار اسے نیچے اتارنے میں کامیاب ہوئے۔ اس بے اختیارے بابا لیاقت کو اس کے حال پر چھوڑ کر ہم اپنے بااختیار حکمران خاندان کی خیر خبر پوچھتے ہیں۔ پانامہ لیکس میاں نوازشریف کیلئے ایک سیریس مسئلہ بن چکا ہے۔ آپ اسے حکمرانی کے لذیذ خستہ کباب میں ایک ہڈی بھی سمجھ سکتے ہیں۔ پانامہ لیکس میں بے شک میاں نوازشریف کا نام نہیں‘ لیکن اس میں ان کی بیٹی اور بیٹوں کے نام نے انہیں اخلاقی طور پر بہت کمزور کیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بڑے اپنے بچوں بارے جوابدہ ہوتے ہیں۔ ادھر سبھی اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے اپنا حال اور اپنی آخرت تک برباد کرنے کو تیار ہیں۔ لندن کے مہنگے سٹوروں میں دیکھے جانے والے میاں نواز شریف کیلئے دوسری جواب داری عبدالستار ایدھی چھوڑ گئے ہیں۔ ایدھی ملیشیا کے کپڑوں‘ سر کے بے ترتیب بالوں‘ بے تراش داڑھی اور پلاسٹک کی سستی سی چپل میں سادہ بودوباش کے ساتھ کیا باوقار زیست کر گئے۔ رائے ونڈ محلات کے کسی عام سے خدمت گار کو بھی ایدھی کے دو کمروں سے بہتر کوارٹر میسر ہو گا۔ ایدھی عمر بھر بجلی کے پنکھے اور اے سی سے بھی پرے پرے ہی رہے۔ ایدھی کا سادہ طرز زندگی ہمیں اپنے حکمرانوں کے بارے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس باوقار بوڑھے نے ہماری وکلاءتنظیموں کو بھی بڑی مصیبت میں ڈال دیا۔ جھٹ سے چھٹی کے اعلان کی عادی ہماری وکلاءتنظیمیں حیران و پریشان تھیں کہ ایدھی کی موت پر چھٹی کا اعلان کیسے کریں۔ جبکہ اس کی موت اور تدفین کے دن بھی اس کے قائم کردہ تمام اداروں میں حسب معمول کام جاری تھا۔ عمران خان احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلنے والے ہیں۔ فضل الرحمن کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتیں میاں صاحب سے زیادہ خوش نہیں۔ لوڈشیڈنگ‘ بیروزگاری‘ امن عامہ کی گرتی ہوئی صورتحال اور دیگر تمام مسائل اپنی جگہ بجا لیکن کیا کیا جائے کہ میاں صاحب کے ووٹر بدستور ان کے ساتھ ہیں۔ انہیں ماننے والے یوں مانتے ہیں ’اک تیرا خیال کئی خیال روند جاتا ہے‘۔ گلگت بلتستان سے تازہ ضمنی الیکشن کی روداد یوں ہے: مسلم لیگ (ن) کا عمران وکیل کامیاب۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی ضمانت ضبط۔ دھاندلی وغیرہ کا کوئی شور بھی نہیں۔ معروف صحافی چودھری قدرت اللہ یہ خبر لائے ہیں کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ ن جیت رہی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں دوسری پوزیشن پر مقابلہ ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے کل چودھری محمد صدیق نے دیا۔ چودھری صاحب پچھلے الیکشن میں این اے 95 میں پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے۔ یہ ان خوشحال لوگوں میں سے ہیں جن کے گھروں کی وسعت میں ان کی شادیاں اور جنازے سب کچھ سما جاتا ہے۔ ان دنوں یہ تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ کہنے لگے: میلے کچیلے کپڑوں والے فاقہ مست غریب غرباءپیپلز پارٹی سے باہر نکل آئے ہیں لیکن یہ ابھی تک تحریک انصاف میں نہیں پہنچے۔ کیا کوئی یہ اطلاع بنی گالا بھی پہنچائے گا؟