کارواں قومی زبان اسلام آباد
کسی بندہ خدا نے کیا خوب کہا ہے کہ ہمت مرداں مدد خدا، اللہ ان لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو مخلوق خدا اور رضائے الٰہی کے لئے عمل میںنکلتے ہیں۔اسباب و حالات ان کی منزل کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ نہیں رہ سکتے۔بلند ارادے جواں ہمت ہی کامرانی کی شرط اول ہوتی ہے۔ جب 2009ءمیں حکومت پنجاب تعلیمی اداروں کو ابتدائی سطح پر انگلش میڈیم کرنے کا ارادہ کیا تو رحمن پورہ لاہور کے ایک کوارٹر کی بیٹھک میں ڈاکٹر شریف نظامی، پروفیسر اشتیاق، پروفیسر غلام مصطفی اور چند جمعیت کے نو عمر طالب علموں نے انگلش میڈیم کے حکومتی فیصلے کو رد کرتے ہوئے قومی زبان تحریک کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا عزم کیا۔ راقم بھی کچھ دنوں بعد ان سے منسلک ہوگیا کون جانتا تھا کہ چند خاک نشینوں کے عزم صمیم کی صدا ایک دن ملک کے ہر گوشے ہر کونے میں جا پہنچے گی۔ پروفیسر زاہد اور محترمہ قمر فاطمہ کی شمولیت نے تحریک کو چار چاند لگا دیے اب اردو کا چرچا کانفرنس ہالوں، حکومتی ایوانوں اوراعلیٰ عدالتوں میں سنائی دینے لگا۔ ملک کے نامور کالم نگاروں اوردانشوروں نے نفاز اردو کی حمایت میں اپنااپنا زاویہ نظر پیش کیا پھر آسمان نے دیکھا کہ خواجہ کوکب اقبال کی پندرہ سال پرانی اپیل سپریم کورٹ میں سنوائی کے لئے سامنے آتی ہے۔ محسن اردو چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ آئین پاکستان کی شق 251 کے تحت حکومت کو تین مہینے کے اندر اندرنفاذ اردو کا عدالتی حکم نامہ پیش کرتے ہیں۔ ایک وہ دن تھا جب ہم اسلام آباد سے یہ حکم نامہ لے کر بڑے فخریہ انداز میں یہ سمجھتے ہوئے لاہور پہنچے کہ منزل مراد مل گئی مگر ابھی خاصا کام باقی تھا خبریں تو آنی شروع ہوگئیں۔ ایوان صنعت و تجارت کے نئے صدر نے اپنے ادارے میں اردو کو اپنا لیا۔ کسٹم میں جناب ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے ادارے میں نفاز اردو کا فیصلہ کیا۔ منصورہ ہسپتال کے ڈاکٹر انوار بگوی بھی اس عمل میں آگے بڑھے۔ علاوہ ازیں تعلیمی اداروں میں سرگودھا یونیورسٹی نے اردو پھیلانے میں پہل کی۔ یو ای ٹی میں بھی ای کیٹ اور ایم کیٹ کا سارا شیڈول اردو میں جاری کیا گیا۔ ایسی خبریں یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز سے بھی سنائی دیں۔ گجرات یونیورسٹی نے میں دارالترجمہ قائم کرکے قوانین کو اردو میں ڈھالنے کا اہتمام کیا۔ اس کےلئے وزیر اعلیٰ کی جانب سے خصوصی امداد کا اعلان ہوا۔ نادرا نے اردو میں پیغام رسانی کا آغاز کیا۔ گورنر ہاﺅس پنجاب سے نفاذ اردو کی خبر آئی۔ بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ ایک ماہ کے اندر صوبے میں نفاذ قومی زبان کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر عرفان صدیقی کی نفاز اردو کے سلسلے میں شب و روز کاوششیںبھی قابل تحسین ہیں۔ انجمن ترقی اردو کی موجودہ سربراہ فاطمہ حسن نے وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں افسران اور اہلکاروں کے اردو میں مراسلہ جات کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے ہی ایگری کلچرل سنٹر میں مفت تربیت کا قیام کیا گیا۔ صدر پاکستان جو وفاق پاکستان کی علامت ہیں نے پہلے غیر ملکی سفیروں سے اردو میں خطاب کیا پھر شنگھائی کانفرنس میں اپنی زبان میں موقف پیش کیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی جاپان اور فرانس سمیت کئی ممالک کے سفیروں کو روانی سے اردو میں گل فشانی کرتے پایا۔ سکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے الیکشن میں پاکستانی نژاد حمزہ یوسف نے اپنی جیت پاکستان کے نام کرتے ہوئے عہدے کا حلف انگریزوں کے ملک میں اپنے قومی لباس زیب تن کرتے ہوئے قومی زبان میں اٹھا کر ایک جانب پاکستانیوں کے دل جیتے تو دوسری طرف مقامی لوگوں سے دار تحسین حاصل کی۔
جس شہر نے ہمیں عدالتی فیصلے کا فخر دیا اسی شہر کے ایوان قائد میں قومی زبان تحریک نفاذ اردو پیش رفت اور تقاضے کے عنوان سے کانفرنس کا فیصلہ کیا گیا۔ حسب سابق مشکلات رکاوٹیں بے سرو سامانی موسم کی ستم گریاں اخراجات کی طولانیاں کانفرنس کا وقت تبدیل کرنے کی دعوت دے رہی تھیں مگر خاک نشینوں کے مضبوط ارادے اللہ پر توکل دیدنی ہے۔ اس کی تیاری کسی فائیو سٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ عدنان عالم کے 14×7کے مختصر سے دفتر میں اہم منصوبہ بندی انجام پائی۔ اسلام آباد میں کمانڈر محمود اقبال، ڈاکٹر عطاءالرحمن، کنور قطب الدین، صلاح الدین اور جمیل اقبال نے بھی اپنی خدمات پیش کیں لہذا 24جولائی کو ایوان قائداعظم فاطمہ جناح پارک F9اسلام آباد میں کانفرنس کا انعقاد طے پایا۔جب یہ خبر تحریک کے ساتھیوں تک پہنچی جذبوں کے زمزمے بہنے اور آ س کے قمقمے روشن ہونے لگے۔ایک طرف چھوٹے بڑے شہروں سے تحریکی ساتھی اپنی خدمات اور چھوٹے چھوٹے عطیات لکھوا رہے تھے۔دوسری جانب اکابرین قوم اس کانفرنس میں آنے پر آمادگی کا اظہارکر رہے تھے۔ایس ایم ظفر،الطاف حسن قریشی، اوریا مقبول جان ابتداءسے ہی تحریک کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ جناب عرفان صدیقی اور راجہ ظفر الحق سے کانفرنس کا کہا گیا تو انہوں نے بھی بخوشی دعوت قبول فرمائی۔ اس موقع پر مرحوم جنرل حمید گل کی شفقت کو فرا موش کرنا مشکل ہے۔ راقم کی بینائی کی کمی کو میرے ساتھی( پروفیسر سلیم ہاشمی، قمر فاطمہ، عدنان عالم، حامد انور، کاشف منظور اور رانا سہیل) نے میری بصیرت و بصارت بن کر پورا کیا اور میں بے ساختہ کہہ اٹھا ساتھیوساتھ نہ چھوڑنا ساتھیو ہاتھ نہ چھوڑنا۔ خدا اس کانفرنس کی کامیابی کے ساتھ ہمیں ایک بار پھر ایک قو م کے قالب میں ڈھال دے۔