صرف نواز شریف ہی کیوں؟
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی پالیسیوں سے مجھے بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں بلکہ ہیں۔ بھارت کے معاملے میں ان کی بے جا لچک، قرضوں پر قرضے لیتے جانا، قومی اداروں کی نجکاری پالیسی، ٹیکسوں کی بھرمار، اقوام عالم کے سامنے معذرت خواہانہ انداز اورکمزور م¶قف، اداروں سے تصادم کی پالیسی، بے جا غیرترقیاتی اخراجات، شہنشاہانہ انداز، مخلص اور بے لوث کارکنوں سے دوری، ملک میں بدعنوانی کا فروغ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود کہ وہ حلقہ یاراں میں اپنی خوش مزاجی اور دوستوں کو نوازنے میں مشہور ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان میں آمریت کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کے مخلص کارکن ہی نہیں ان کی پارٹی کے اہم عہدیدار بھی ان سے ملاقات کو ترستے ہیں۔ ایک محدود اور مخصوص حلقہ ہے جو ان کے گرد نظر آتا ہے میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے مشرف کی آمریت کے دور میں بڑی جرات کے ساتھ میاں نواز شریف کی حمایت اور مشرف کی مخالفت میں لکھا جس کی انہیں قیمت بھی چکانی پڑی لیکن میاں نواز شریف نے ان کی قدر نہیں کی۔ ایک صحافی نے میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت پر شب خون مارنے اور مشرف کی آمریت کے خلاف کئی کالم اور ایک کتاب لکھی، حکومتی دبا¶ برداشت کیا، جب میاں نواز شریف طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے تواس صحافی نے وہ کتاب میاں نواز شریف کو بھجوائی تو جاتی عمرہ سے اس صحافی کو سادہ کاغذ پر کسی سیکرٹری کے دستخط کے ساتھ کتاب وصولی کی اطلاع بھجوا دی گئی۔ نہ اس کی جرات مندی کا اعتراف کیا گیا اور نہ ہی کتاب بھجوانے پر ان کی طرف سے اظہار تشکر کیا گیا۔این ار آو کے بعد اور پیپلز پارٹی کے پانچ سال مکمل ہونے پر انہیں یقین تھا کہ آئندہ حکومت ان کی ہی بنے گی۔ لیکن ان کے انداز الیکشن سے پہلے ہی حکمرانوں جیسے ہو گئے تھے۔ 2013ءمیں جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو میں نے ”میاں صاحب اب ذرا سنبھل کے“ کے عنوان سے کالم لکھا تھا۔ جس میں انہیںکچھ مشورے دیئے گئے تھے لیکن اقتدار کے نشے میں کوئی کسی کے مشوروں پر توجہ کب دیتا ہے۔
یہ سب اعتراضات یا اختلافات اپنی جگہ۔ لیکن ایک بات بڑی قابل غور ہے کہ مشرف کی آمریت اور صدارت کے دور میں بھی بدعنوانی عروج پر رہی، پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ ملا، نام نہاد ترقی پسندی کے نام پر پاکستان کی اسلامی اور نظریاتی اقدار کی پامالی ہوتی رہی۔ ایم کیو ایم جیسی جماعت جس کی ملک دشمنی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اس کو فوقیت دی گئی۔ غیرملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لئے وطن کے مفادات کے خلاف اقدامات کئے گئے۔ اس سب کے باوجود پرویز مشرف طویل عرصہ اقتدار پر براجمان رہے گا اور گارڈ آف آنر لے کر ایوان صدر اور ملک سے رخصت ہوئے۔
2013ءسے میاں محمد نواز شریف اقتدار میں آئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان کا دور حکومت بھی گزشتہ حکومت جیسا ہی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے جا رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام تر خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود نواز شریف حکومت اپنے سابقہ ادوار کی طرح پاکستان میں تعمیر و ترقی کے کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ موٹروے کی تعمیر کے بعد اب اقتصادی راہداری پر کام تیزی سے جاری ہے۔ یہ وہ منصوبہ ہے جو ہر ملک دشمن کی نظر میں کھٹکتا ہے۔ اس میں فوج کا بھی ہر طرح کا تعاون حاصل ہے۔ اس سے قبل میاں نواز شریف عالمی طاقتوں کے سخت دبا¶ کے باوجود ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ اب اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے ہونے والا کام، چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی مضبوطی، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ سہی قدرے کمی، بہتر ہوتی ہوئی معیشت وطن دشمنوں کو پریشان اور بے چین کئے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن پلان کے تحت دھرنوں کی ناکامی کے بعد اب پھر لندن پلان کے کردار سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں اور ملکی ترقی کا سفر روکنے کیلئے پھر دھرنوں کا پروگرام بنا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔ پاکستان دشمن طاقتیں ہر اس پاکستانی حکمران کو سزا دینا چاہتی ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی اور پاکستان کو عالم اسلام کا مرکز بنانے کے خواب دیکھتا ہے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور فوج مل کر پاکستان کی ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے مل کر کام کریں اور ملک دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں۔ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی پانچ سال میں عوام کی توقعات پر پورا نہ اتری تو آئندہ انتخابات میں خود ہی پیپلز پارٹی جیسے انجام کو پہنچ جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے میاں محمد نواز شریف کو نئی زندگی اور موقع دیا ہے اور تمام تر افواہوں کے باوجود وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ان کے مقابل کوئی ایک جماعت حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنی خامیوں کو دور کر کے خلوص نیت سے عوامی فلاح و بہبود اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کی قیادت کا حق ادا کریں اور امر ہو جائیں۔ عبدالستار ایدھی کی زندگی سے سبق حاصل کریں کہ دلوں پر حکمرانی ملکوں کی حکومت سے نہیں انسانوں کی خدمت سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کیلئے میرا مشورہ اب بھی یہی ہے۔
”میاں صاحب! اب ذرا سنبھل کے....!“