کاش پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا ہوتا
جمعہ کی رات کو یہ پریشان کن خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ترک فوج نے طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹ کے ملک میں مارشل لا لگا دیا ہے۔ مغربی میڈیا اور ہمارے یہاں کے چند بکاوْ تجزیہ کاروں نے ترک فوج کے اس اقدام کو پزیرائی دنیا شروع کر دی تھی۔ہزار سلام ہے ترک عوام کو جنہوں نے اپنے منتخب وزیر اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا۔ اپنی منتخب حکومت بچانے کے لیے عورتیں بچے اور جوان سبھی باغی فوج کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ترک قوم نے ایسا کام کر دیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ترکی کی بہادر پولیس فورس نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ثابت کیا ہے کہ کسی بھی ملک کی اندرونی حفاظت وہاں کی پولیس کا ہی کام ہے۔اسلام سے محبت ترک قوم کے خون میں شامل رہی ہے اور ہر دور میں ان بہادر لوگوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ترک خلافت نے ایک لمبے عرصے تک مسلم دنیا کو اندرونی سازشوں اور بیرونی حملوں سے بچائے رکھا تھا۔لیکن وہ بھی انگریز کے بچھائے جال میں آکر اپنی خلافت کے خاتمے پر مجبور ہوگئی۔تاج برطانیہ کے جاسوسوں نے بڑی محنت اور مہارت سے مسلم دنیا کی اس سپر پاور کے خاتمے کی پلاننگ کی تھی۔جس میں کامیاب ہو کر انہوں نے عرب ملکوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا۔بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ان ممالک کی دولت نے انہیں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کا عادی بنایا ہوا ہے۔آج یہ سارے عرب ملک اکٹھے ہو کر چھوٹے سے ملک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔بہت زیادہ وسائل نہ ہونے کے باوجودترکی اور پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ مگر نہ معلوم ہمارے جرنیل کیسے اغیار کے کہنے پر اپنی حکومتوں کو گھر بھیجتے رہے ہیں۔ایوب خان نے جب مارشل لائ لگایا تھا۔کاش اگر اس وقت پاکستانی قوم فوجی آمر کے سامنے سینہ تان کے کھڑی ہوجاتی تو یقین ہے آج پاکستان بھی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوتا۔لیکن ہمارے یہاں ٹھکرائے ہوئے سیاستدانوں نے فوج کوہمیشہ خوش آمدید کہا ہے۔ایوب خان اگر ملک میں ایک آمر کی حثیت سے اقتدار پر قبضہ نہ کرتا تو سیاسی عمل جاری رہنا تھا جس کی وجہ سے عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے سیاسی عمل کا حصہ بنتے رہتے۔ جمہوری طرز عمل کے جاری رہنے سے سیاست دان عوامی خدمت کر کے اگلے الیکشن میں اپنی کامیابی کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے سکتے تھے۔ایوب اور یحیی خان کی آمریت کا نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا تھا۔بھٹو نے جس طرح بھی اقتدار حاصل کیا یہ ایک الگ بحث ہے مگر وہ ایک بہت بہترین مقرر اور ایک معاملہ فہم سیاستدان تھا۔بھٹو صاحب نے پاکستان میں مسلم ممالک کا سربراہی اجلاس بلا کر نہ صرف مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا۔ بلکہ ان کی پلاننگ یہ بھی تھی کہ ورلڈ بینک کی طرح مسلمانوں کا بھی اپنا ایک بینک ہو۔اس کا صدر مقام بھی پاکستان میں قائم کرنا طے پا گیا تھا۔اگر بھٹو کا عدالتی قتل نہ ہوا ہوتا تو پاکستان جس دشت گردی کی آگ میں آج جل رہا ہے ایسی نوبت شاید کبھی نہ آتی۔ امریکہ کو پاکستان جیسے ملک میں شخصی حکمران کی ہی ضرورت تھی۔جو ان کے ایک ہی اشارے پر ملک کے جوانوں کو جہاد کے نام پر امریکہ کی جنگ کا ایندھن بنا دے۔ ملک میں ہتھیاروں اور نشے کی لعنت ضیائ دور کی ہی مہربانی ہے۔
بھارت نے جب پہلی بار ایٹمی دھماکے کیے تو وہ اپنے آپ کو اس علاقے کا واحد سپر پاور سمجھنے لگا تھا۔ساری مغربی دنیا اور امریکہ کہ منع کرنے کے باوجود میاں نواذ شریف نے جوابی ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی بالادستی کو تو ختم کردیا تھا۔مگر وطن سے محبت کا صلہ انہیں ایک فوجی آمر کے ہاتھوں اپنی حکومت کے خاتمے کی شکل میں مل گیا۔ایک ایسا فوجی کمانڈر جو ٹی وی سکرین پر اپنے ہم وطنوں کو تو مکے دکھا کے ڈرانے کی کوشش کرتا رہا مگر امریکی حکومت کے ایک اشارے پر ا س نے پیارے وطن کو بارود کی آگ میں جھونک دیا۔ جس کی سزا آج ہمارا پورا ملک برداشت کر رہا ہے۔نائن الیون حملوں کو جواز بنا کر امریکہ نے اس علاقے کے لیے جو پلان بنایا تھا۔اس کی قیمت ہماری کئی نسلیں بھگتتی رہیںگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہمیں اپنی بہادر افواج سے بے پناہ پیار ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ عزت کے قابل ہمارے فوجی جوان ہی سمجھے جاتے ہیں۔اور سمجھے جانے بھی چاہیے۔ہماری فوج دنیا کی ایک بہترین تربیت یافتہ فوج ہے۔ہر طرح کے حالات میں ہمارے جوانوں نے مادر وطن کے دفاع کے لیے بہادری کی انمول مثالیں قائم کی ہیں۔سارا ملک اپنی افواج پر فخر کرتا ہے۔مگر سیاست دانوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اپنی سیاسی باری کا یقین نہیں ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر ہماری فوج ملک میں سول حکومت کو چلتا کرے تا کہ جو عوامی ووٹ سے اقتدار حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔انہیں چور دروازے سے حکومت کا حصہ بننے کا موقع مل جائے۔مگراس بار ہمارے آرمی چیف نے سول حکومت کا ہر جگہ ساتھ دینے کا عزم کیا ہوا ہے۔کراچی آپریشن ہو یا راہداری منصوبہ فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ ضرورت ہے کہ جو سیاست دان فوج کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ایوان اقتدار پر قبضے کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں جیل کے اندر ڈال دیا جانا چاہیے تا کہ ہمارے ملک میں بھی جمہوریت کا سفر ہمیشہ چلتا رہے۔ ٹی وی چینلز کے لیے بھی ایک لائحہ عمل بنا نا چاہیے کہ وہ ملکی سیاسی اور عسکری قوتوں کے درمیان دوریاں پیدا نہ کر سکیں۔پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کاش ہم ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے وقت جاگ جاتے,ہم ضیائ, مشرف کے ہاتھوں سیاسی حکومتوں کو گھر بھیجنے کے وقت مٹھائیاں نہ بانٹتے تو پاکستان اس وقت دنیا کا واقعی ایک مضبوط ترین ملک ہوتا۔کاش ہم اب ہی سمجھ جائیں۔کاش !