• news
  • image

ڈیوڈ کیمرون چلے گئے اور اداس بلی انہیں دیکھتی رہی!

کالم اس مرتبہ باکمال لوگوں کی لاجواب سروس پی آئی اے کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور ان کے ہمراہ لندن کے دورہ پر آئے ڈائریکٹرز کے ساتھ ہونے والی بات چیت پر لکھا تھا مگر ہوا یوں کہ اس کالم کی اشاعت سے قبل ہی نئی برطانوی وزیراعظم کا چناؤ عمل میں آگیا اسلئے مجبوراً اس کالم کو آئندہ پیر تک مؤخرکرنا پڑا۔ ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کے بعد برطانوی سیاست میں ایک اچھا خاصا تلاطم برپا ہوا۔ لیبرپارٹی کے رہنما Jeremy Corbyn کو اپنی لیڈر شپ کے دفاع کے لئے پارٹی کے باغی اراکین سے نیشنل ایگزیکٹوکونسل کے اجلاس میں لفظوں کی ایک بھرپور لڑائی لڑنی پڑی، تاہم لیبر اراکین کی بھاری تعداد نے Angela Eagle کے مقابلے میں جیرمی کوربائین پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اْن کی لیڈرشپ تسلیم کر لی۔ اسطرح برطانیہ کے یورپی یونین کے انخلا کے بعد پیدا شدہ صورت حال سے فوری نمٹنے کے لئے حکومتی سطح پر کئے کی اقدامات کے علاوہ نئے وزیراعظم کی تقرری ایک اہم سیاسی مسئلہ تھا جیسے فوراً حل کرلیا گیا۔ باوقار زندہ قومیں چونکہ اپنے لیڈروں کی کارکردگی اور اقوال سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ اسلئے برطانوی وزیراعظم نے عوام سے کئے وعدہ کو فوری نبھاتے ہوئے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی اپنی سرکاری رہائش گاہ 10ڈا?ننگ سٹریٹ خالی کر دی۔ ڈیوڈکیمرون نے اپنا سرکاری گھر جب خالی کیا تو وہاں سے جو سامان اٹھایا گیا ان کے لئے گتے کے 330 خالی ڈبے اور کاغذکے 30 بڑے رول جن سے بعض اشیائ￿ کو لپیٹنا تھا۔ ایک مقامی Removal وین کے ذریعے لائے گئے/ دوران پیکنگ پولیس کا آرمڈ دستہ سکیورٹی کے فرائض انجام دیتا رہا۔ جب یہ مختصر سا سامان وین میں لوڈ کر لیا گیا توڈیوڈکیمرون اپنی اہلیہ سمنتھا، 12سالہ نینسی، بیٹی 10سالہ بیٹے آرتھر اور 5 سالہ فلورنس کی انگلیاں پکڑکر سرکاری رہائش کو الوداع کہہ کر پیدل چلتے ہوئے وین سے گزرے تو ان کی وہ براؤن اور سفید رنگ کی larry نامی بلی جسے 2011ئ￿ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ میں دوڑنے والے چوہوں کے خاتمے کیلئے لایا گیا تھا حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ وقفہ سوالات کے دوران بھی بلی کاجب ذکر آیا توڈیوڈکیمرون نے جواب دیا کہ یہ بلی انکی ملکیت ہے اور نہ ہی انہیں یہ بلی اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت۔ Larry چونکہ سول سرونٹ کے طور پر یہاں قیام پذیر ہے اس لئے اسے 10ڈاؤننگ سٹریٹ میں ہی چوہوں کا قلع قمع کرنے کے فرائض سرانجام دینا ہیں۔ یہ بلی اب نئی وزیراعظم تھریسامے کے ساتھ رہے گی۔ میں یہ منظردیکھ کر اس سوچ میں گم تھا کہ ہمارے حکمران آخر جمہوریت کے حقیقی مفہوم سے آشنائی حاصل نہیں کرتے۔ اول تو ہمارے ہاں سرکاری رہائش گاہیں چھوڑنے کا سرے سے کانسپٹ ہی موجود نہیں۔ اگر کہیں کوئی حکمران یا حکمرانوں سے ملتے جلتے بااختیار اعلیٰ ترین افسروں کو بذریعہ عدالت اپنی سرکاری رہائش گاہ چھوڑنی پڑ بھی جائیں تو جاتے جاتے بھی وہ اپنے ساتھ باتھ شاورکی مہنگی ٹوٹیاں، خصوصی وولن کارپٹس، اے سی یونٹس اور سرکاری فرنیچر تک لے جاتے ہیں۔ انہیں سامان اٹھوانے کے لئے 330 گتے کے ڈبوں کی ضرورت نہیں بلکہ انکے سامان کیلئے Articulated لاریوں کا بندوبست کیا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت کو الوداع بھی شہنشاہی طریقہ سے ہی کرنا ہوتا ہے؟ ڈیوڈ کیمرون جب گھر سے نکلے تو پہلی نظر میں لگتا ہی یوں تھا کہ وہ سابق وزیراعظم نہیں بلکہ ایک ایسے کرایہ دار تھے جن کی قیام کی مدت ختم ہوگئی اور انہیں اب اپنی رہائش گاہ خود تلاش کرنا ہوگی۔ یہی تو برطانوی جمہوریت کا حسن ہے کہ عوام کے ووٹوں سے حاصل کی گئی حکمرانی کا وقت جب اختتام پذیر ہوتا ہے توحکمران دوبارہ عام شہری بن جاتا ہے اور یہی کچھ ڈیوڈکیمرون نے کیا۔ نئی وزیراعظم تھریسامے نے 10ڈاؤننگ سٹریٹ میں داخل ہوتے ہی اپنی قومی ذمہ داریوں کا آغاز کردیا ہے وہ بلی جو ڈیوڈ کیمرون کے دفترکی سیڑھیوں میں اکثر دکھائی دیتی تھی اب تھریسامے کے ساتھ لاڈیاں کرتی نظر آئے گی۔وزیراعظم تھریسامے بنیادی طور پر ایک Englican فرقے کی ایک عیسائی خاتون ہیں چرچ آف انگلینڈ کی رکن ہونے کے ناطے ہر اتوار وہ عبادت کے لئے جاتی ہیں۔ 2010-16 تک وزیرداخلہ رہ چکی ہیں۔ آکسفورڈ کے ایک کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔ 2012میں انہیں ذیابیطس ٹائپ 0neکا مرض لاحق ہے اور روزانہ انسولین لیتی ہیں۔ تھریساکے شوہرMayایک انوسٹمنٹ بنکر ہیں۔ وزیراعظم کی کوئی اولاد نہیں۔ اپنی پہلی کابینہ میں انہوں نے سب سے اہم وزارت لندن کے سابق میئر اور مزاحیہ سیاست بورسن جانسن کو دی ہے۔ بورس جانسن کو وزیرخارجہ کا قلمدان سونپا گیا ہے بورس کا برطانوی سیاست میں طنز و مزاح کے حوالہ سے چرچا عام ہے۔ عام طور پر انہیں مزاحیہ اور مسخرہ سیاست دان تصورکیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مذاق مذاق میں کئی مرتبہ وہ ایسا سنجیدہ اور سبق آموز مذاق بھی کرجاتے ہیں جو مذاق سمجھنے والوں کے لئے حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ دیگروزارتوں میں فلپ ہیمنڈ کو جو پہلے وزیرخارجہ تھے انہیں اب وزیرخزانہ اور سابق وزیر توانائی خاتون ایمبروڈ کو وزیر داخلہ مقررکیا گیا ہے۔
وزیراعظم تھریسامے نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ ان کی حکومت کسی مخصوص طبقے کے لئے نہیں بلکہ ایک قوم کے لئے اپنی خدمات پیش کرے گی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ یورپی یونین سے انخلا کے بعد نئی وزیراعظم کی قیادت میں برطانیہ کتنی جلد معاشی اور اقتصادی بحران پر قابو پاتا ہے کہ برطانیہ کو اپنا بین الاقوامی معیار قائم رکھنے کے لئے کم سے کم مدت میں موجودہ مالی بحران پر قابو پانا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن