افغانستان میں امن عمل کے امکانات معدوم ہونے لگے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) افغانستان میں امن عمل کے امکانات بتدریج معدوم رہے ہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ مذکرات ترک کرنے کے اعلان کے بعد اشرف غنی حکومت اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے درمیان امن بات چیت بھی اتار چڑھائو کا شکار ہے اور فریقین کے طرز عمل سے دکھائی دیتا ہے کہ اس معاہدہ کے طے پانے کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔ مزید مایوس کن امر یہ ہے کہ افغان طالبان اور حزب اسلامی کے درمیان ملک کو قابض فوجوں کے تسلط سے نکالنے اور افغانستان کے آئندہ سیاسی منظر نامہ کے بارے میں روابطہ کا مکمل فقدان ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے سے سخت بدگمان ہیں۔ ذرائع کے مطابق اشرف غنی حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان جون کے مہینے میں امن تجاویز کا تبادلہ ہوا تھا۔ طرفین مانتے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا معاہدہ کی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان، بیورو کریٹ اور فوجی کمانڈر بھی حزب اسلامی کے ساتھ پرانی عداوت کے سبب مجوزہ معاہدہ کے سخت مخالف ہیں۔ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی گروپ، افغان حکومت کی طرف سے بات چیت ترک کرنے کے اعلان کے بعد عملاً غیر فعال ہو چکا ہے۔