چیزیں ٹھیک ہیں نہ کوئی ذمہ داری ادا کرنے پر تیار‘ سندھ میں امن کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر حل تلاش کریں: سپریم کورٹ
کراچی (این این آئی+بی بی سی) سپریم کورٹ نے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق پولیس حکام کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اسے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیدیا ہے۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔ چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی سندھ نے اویس شاہ کے اغوا سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ڈی ایس پی رینک کے 24 جب کہ ایس ایس پی اور ایس پی رینک کے 4 افسروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے، ان میں ایس ایس پی فاروق احمد، ایس پی اسد اعجاز، ایس پی امجد حیات اور اے ایس پی طارق نواز بھی شامل ہیں۔ چاروں افسران کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر کارروائی کی جارہی ہے۔ عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی سندھ کی رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ 20 جون کو سی سی ٹی وی کیمرے بھی خراب تھے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس جدید دورمیں 2 میگا پکسل کے کیمرے لگا کر عوام کے 50 کروڑ روپے ضائع کئے گئے۔ اس کا جواب کون دے گا، جس پر چیف سیکرٹری سندھ نے کہاکہ ایک این جی او کی مدد سے کیمرے نصب کئے گئے جس پر عدالت نے کہا کہ کیمرے کسی نے بھی لگوائے ان کی منظوری تو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ہی دی تھی۔ اگر معاملے کی تحقیقات نہ کی گئی تو کیس نیب کو بھیج دیں گے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کہ کوئی چیزبھی ٹھیک نہیں، کوئی بھی اپنی ذمے داری ادا کرنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کی ہی بات نہیں، ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ عدالت نے 28 جولائی کو اویس شاہ کے اغوا اور خراب سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ جب ججز کے بارے میں پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو سکتی تو ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھ کر کیسے تبصرے کیے جاسکتے ہیں؟ اگر کسی کو ججز پر کوئی اعتراض ہے تو اس کا آئینی راستہ موجود ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ کراچی میں بدامنی کیس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا میں کوتاہی کے بارے میں سماعت کے موقع پر چیئرمین پیمرا پیش ہوئے اور بتایا کہ تین ٹیلیویژن چینلز پر پروگرام کیے گئے تھے جن کا پیمرا نے نوٹس لیا اور ان پر جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس سے کیا ججوں کی عزت و وقار بحال ہو جائیگا؟ ان چینلز کا لائسنس کیوں نہیں منسوخ کیا گیا جبکہ قانون کے مطابق آپ یہ اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ ابصار عالم نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک دم انتہائی اقدام کرتے ہیں تو عدالتیں ناراض ہوتی ہیں اس وجہ سے مرحلے وار کارروائی کی جاتی ہے۔ عدالت نے پیمرا کی کارروائی اور نوٹس کا جائزہ لیا اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی عدم حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا۔ بینچ نے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو 28 جولائی کو طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ آ کر عدالت کو بتائیں کہ سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف مہم کی روک تھام کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کئے ہیں۔ سماعت کے دوران رینجرز کی موجودگی اور اس کو حاصل پولیس کے اختیارات کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رینجرز کو حاصل اختیارات کی مدت پوری ہوگئی ہے، عدالت کو اس پر ہدایت کرنی چاہیے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے واضح کیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس کو انتظامی طور پر ہی حل کیا جائے عدالت اس معاملے میں نہیں پڑے گی۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو نادرا ڈیٹا تک رسائی اور جیو فینسگ کی جدید سہولت دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اویس شاہ سمیت دیگر مقدمات میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ پولیس کے پاس ٹو جی مانیٹرنگ نظام ہے اس لیے اس کو تھری جی ڈیٹا نہیں مل سکتا۔ موجودہ وقت میں انٹرنیٹ کی کئی ڈیوائسز دستیاب ہیں اور کئی شہروں میں تھری جی اور فور جی کی سہولیات موجود ہیں۔ ملزم اس کا فائدہ اٹھا کر واٹس ایپ اور دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے انٹرنیٹ کالز کرتے ہیں جن تک رسائی کی ان کے پاس صلاحیت موجود نہیں، پولیس کو اس کی اجازت دی جائے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے وفاقی سیکرٹری داخلہ عارف احمد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت کراچی اور سندھ میں امن کا قیام چاہتی ہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہو تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے، تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے موثر انداز میں کارروائی کرسکیں۔ انہوں نے وفاقی سیکرٹری اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ پولیس کے شکایتی مرکز 15 کا ریکارڈر دو ہفتوں میں بحال کر کے رپورٹ پیش کی جائے اور وفاقی حکومت بتائے کہ اویس شاہ کے اغوا میں کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔