اختلافات‘ ذاتی مفادات: اپوزیشن جماعتیں حکومت کیلئے بڑا خطرہ نہیں
لاہور (جواد آر اعوان+ نیشن رپورٹ) اتحاد کی کمی‘ الگ الگ ایجنڈا اور ذاتی مفادات کے باعث اپوزیشن حکومت کو گرانے کیلئے مشترکہ سٹرٹیجی اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مسائل پر اختلافات اور کنفیوژ اپوزیشن حکومت کیلئے بڑا خطرہ بنتی نظر نہیں آتی۔ اپوزیشن پارٹیاں 31 جولائی کو طاہر القادری کی عوامی تحریک کی کانفرنس میں شریک تو ضرور ہو رہی ہیں لیکن اس کانفرنس میں اپوزیشن کا باہمی اختلافات ختم کر لینا معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ پیپلزپارٹی آہستہ‘ آہستہ دیگر اپوزیشن جماعتوں سے دور ہو رہی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن سے براہ راست تصادم سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ذاتی مفادات کو زک پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان نے 7 اگست سے حکومت مخالف مہم شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ ’’احتساب مہم‘‘ مختلف مراحل میں چلائی جائیگی جس کا آغاز عوامی ریلیوں سے ہو گا۔ عمران خان کے ایک ساتھی کی جانب سے رائیونڈ کا محاصرہ کرنے کی تجویز دی ہے جسے تحریک انصاف کے کئی حلقوں نے بھی قبول نہیں کیا۔ ق لیگ کے کامل علی آغا نے بتایا اپوزیشن پارٹیاں اب تک حکومت کیخلاف مشترکہ مہم چلانے پر متفق نہیں ہوئیں۔ چودھری شجاعت حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کیلئے اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے جماعت اسلامی‘ مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی قیادت سے بات چیت کی ہے۔ پی ٹی آئی کی مہم کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ شیخ رشید نے اپنی الگ مہم چلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی ملک بھر میں کرپشن کے خلاف مہم شرع کر چکی ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت مخالف مہم میں شرکت کا واضح نہیں ہوا ہے۔ سینئر رہنمائوں کا خیال ہے کہ حکمران پارٹی کیخلاف الگ الگ مہموں کا کوئی مستقبل نہیں۔ انہوں نے کہا اپوزیشن پارٹیاں 1977ء کے پاکستان نیشنل الائنس کی طرح اکٹھا ہو جائیں۔ الگ الگ دھرنوں سے اپوزیشن جماعتوں کو 2018ء کے انتخابات میں بھی نقصان ہو گا۔ انہوں نے کہا ہمارے پاس پانامہ لیکس اور لوڈشیڈنگ کیخلاف متحد ہونے کا یہ سنہری موقع ہے۔