پنجاب میں میگا کرپشن کے درجنوں کیس کئی کئی سال سے پینڈنگ
لاہور (معین اظہر سے) پنجاب میں میگا کرپشن کے درجنوں کیس کئی کئی سال سے پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں/ انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ ان کیسوں پر کارروائی کرنے میں ناکام ہے جبکہ حکومت پنجاب نے ڈی جی انٹی کرپشن کے طور پر ایک حساس ادارے کے ریٹائرڈ افسر کو تعینات کیا جس کو کرپشن کیخلاف کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انٹی کرپشن پنجاب میں اربوں روپے کی سرکاری زمین ساہیوال میں بیچے جانے کا کیس 7 سال سے پینڈنگ پڑا ہوا ہے جس کی انکوائری ہی مکمل نہیں کی گئی۔ اس کیس میں خانیوال میں روڈ پر 1564 کینال زمین انہتائی سستے میں بیچ دی گئی جس کے الزام میں سابق چیرمین پنجاب کواپریٹو لیکڈویشن بورڈ فاروق مان ، سابق سیکرٹری پی سی بی ایل چوہدری امتیاز احمد، لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ زاہد منشاء سابق ایڈیشنل سیکرٹری کواپریٹو لیکوڈیشن بورڈ ، تنویر حافظ اور عبدالرشید شامل ہیں۔ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کے مطابق نذر محمد چوہان سابق چیرمین کواپریٹو لیکوڈیشن بورڈ پنجاب نے 2009 میں ڈی جی انٹی کرپشن کو لیٹر لکھا جس میں غلام نبی کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا جس پر انٹی کرپشن نے اس کیس کی انکوائری پہلے ملتان بجھوائی بعد ازاں انکوائری تبدیل کرکے خانیوال بھجوا دی گئی تاہم بعد ازاں انکوائری ملتان کے ڈپٹی ڈائریکٹر انوسٹی گیشن ملتان تنویر اقبال نے کی اور فاروق مان، امتیاز احمد، زاہد منشائ، تنویر حافظ اور عبدالرشید کے خلاف پرچہ درج کرنے کے کا فیصلہ دیا۔ انکوائری افسر نے لکھا کہ 1564 کینال جگہ جو کہ موضع رکھ مخدوم جو کہ خانیوال ٹیکسائل مل کی جگہ تھی کو 10 جون 2006ء کو نیلامی کیلئے رکھا گیا جس میں حافظ عبدالرشید نے 2 لاکھ 40 ہزار فی کینال کی سب سے زیادہ بولی دی جس کو 15 اگست کو منظور کرتے ہوئے اسی روز منظوری کا لیٹر بھی جاری کر دیا گیا ۔ انکوائری میں الزام عائد کیا گیا کہ زمین انتہائی سستی قیمت پر دی گئی جس کی وجہ سے سرکاری خزانہ کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، انہوں نے اپنی سرکاری حیثیت سے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی پرچہ درج ہونے کے بعد کیس کو انکوائری پہلے ملتان کی گئی، ملتان کے انکوائری افسر نے جوڈیشنل کارروائی شروع کرنے کی ہدایات دی تاہم اس کے بعد کیس نئی انوسٹی گیشن کے لئے لاہور شفٹ کر دیا گیا ۔ لاہور میں اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر انوسٹی گیشن نور محمد اعوان ، محمد اعظم منہاس کے پاس گئی تاہم 28 ستمبر 2015 کو اس کیس میں نئے سرے سے جوڈیشنل ایکشن تجویز کیا گیا۔اس کیس میں مزید کارروائی رکی ہوئی ہے اینٹی کرپشن کے افسران کے مطابق عدالت سے حکم امتناعی کی وجہ سے کارروائی رکی ہوئی ہے۔ 7 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کیس کی پہلی جوڈیشنل کارروائی شروع نہیں ہوئی۔کیس میں ایک مین ملزم وفات بھی پاچکے ہیں۔ پنجاب کے کسی سینئر افسر نے اس میگا کرپشن کی انکوائری کی رپورٹ نہیں مانگی۔