• news

برطانیہ، جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ: کراچی میں ٹارگٹ کلرز کو ابھی تک باہر سے پیسے مل رہے ہیں: رینجرز

اسلام آباد (ایجنسیاں) سینٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کو بتایا گیا ہے کہ کراچی میں2013ء کے بعد7950آپریشن کئے گئے ہیں۔6361 افراد کو پولیس اور221کو ایف آئی اے ، اے این ایف اور کسٹمز کے حوالے کیا گیا ہے جن میں سے5518کو بغیر ایف آئی آر درج کئے رہا کیا گیا۔1313کی ضمانت لے لی گئی188کو سزا ہوئی ہے ان میں سے 1236دہشت گرد، 848 ٹارگٹ کلرز، 403بھتہ خور،143اغواء کار تھے ،کراچی میں ٹارگٹ کلرز نے 7224افراد کو نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے، ایم کیو ایم کے خلاف1313، پیپلز امن کمیٹی کے خلاف 1035 اور اے این پی کے خلاف28آپریشن ہوئے ،آپریشن سے کراچی اور اندرون سندھ میں دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،اغوا کاری ،بھتہ خوری کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ٹارگٹ کلرز کو تھائی لینڈ برطانیہ جنوبی افریقہ سے مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے الزام لگایا گیا ہے کہ آپریشن میں صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اجلاس میں اندرون سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات، لاہور سے لاپتہ ہونے والے بچوں اور سینیٹر اعظم خان سواتی کے خواتین کو کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے کے ترمیمی بل2016ء کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔ رینجرز کے کرنل قیصرنے کہاکہ ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے ہمیں سخت ہدایات ہیں کہ کسی بھی شخص کو بغیر ثبوت کے گرفتار نہ کیا جائے رینجرز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات غلط ہیں۔ آپریشن سے کراچی اور اندرون سندھ میں دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،اغوا ء کاری ،بھتہ خوری کے واقعات میں سٹریٹ کرائمز میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ کراچی میں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ سٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔ شہری اب آزادی سے ملازمت ،کاروبار اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ حیدر آباد سے 12افراد اور کراچی سے 3گینگ گرفتار کئے گئے ہیں جو رینجرز کی وردی میں اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے جرائم میں ملوث تھے۔ کسی خاص نسل یا زبان بولنے والے شہریوں کے خلاف آپریشن نہیں ہو رہا ۔نہ ہی کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف آپریشن صر ف اور صرف جرائم پیشہ افراد اور مجرموں کے خلاف بلا تفریق کیا جا رہا ہے۔ اندرون سندھ کاروائی میں 478 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔کراچی آپریشن کے بعد دہشت گردی میں80 فیصد،ٹارگٹ کلنگ میں75فیصد،بھتہ خوری میں85فیصد اور اغواء میں83 فیصد کمی آئی ہے۔چیئر پرسن کمیٹی نسرین جلیل نے کہا کہ آپریشن سے ایسا تاثر قائم ہو رہا ہے کہ کسی خاص پارٹی یا سیاسی وابستگی رکھنے و الے شہریوں یا اردو بولنے والے افراد کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جس سے قومی ا ور بین الا قوامی سطح پر اچھا تاثر قائم نہیں ہو رہا اور کہا کہ کراچی میں گرفتار شہری کی 13ماہ بعد مسخ شدہ لاش ملی ۔ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ شہری کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے مجرموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہونی چاہئے لیکن یہ تاثر قائم نہ ہو کہ کسی خاص کے خلاف کاروائی کی جار رہی ہے۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ بغیر ایف آئی آر درج کئے چھوڑے گئے شہریوں کے بارے میں آئندہ اجلاس میں تفصیلی آگاہ کیا جائے ۔سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والے ایسے نوجوانوں کو اٹھایاگیا جو ایم کیو ایم کے کارکن نہیں تھے اور کہا کہ ایم کیوا یم کے25ارکان پارلیمنٹ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں7ہزار نوجوانوں کو اٹھا لیا گیا ہے دوران حراست 75فراد کی ہلاکت کو مانا گیا ہے۔کراچی میں کاروائی کو پولیس کے حوالے کیا جائے کراچی میں طالبان کالعدم تنظیمیں کھلے عام گھوم رہی ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اہلکاورں پر گولیاں بھی چلائی جاتی ہیں۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کراچی میں آفتاب نامی شہری کے قتل کی تحقیقات ہونی چاہئے لیکن جس ادارے پر قتل کا الزام ہے وہ ادارہ تحقیقات نہ کرے۔ اگر ہمیں اپنی سکیورٹی فورسز کو الزامات سے بچانا ہے تو ہمیں عالمی کنونشن برائے جبری گمشدگی پر دستخط کرنے ہونگے۔سینیٹ کا دوان حراست اموات سے متعلق بل منظور ہو چکا ہے اسے پارلیمنٹ سے پاس کرایا جائے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ا وکاڑہ فارمز کے مزارعین پر دہشت گردی کے مقدمات کے حوالے سے کہا کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی بجائے ہڑتال کا آئینی حق استعمال کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور کہا کہ اینٹی ٹارچر لاء جلد سے جلد پاس کرایا جائے تو زیر حراست ٹارچر سیلوںمیں اموات میں واضح کمی آجائیگی۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ رینجرزکے آنے سے کراچی میں امن آیا ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کراچی میں ہلاکتوں پر تشویش ہے لیکن بلوچستان میں بھی مسخ شدہ لاشوں اور لا پتہ افراد کا معاملہ بھی تشوشناک ہے۔سینیٹر میر کبیر احمد نے کہا کہ بلوچستان کے شہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ لاہور سے لاپتہ ہونے والے بچوں کے حوالے سے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن لاہور نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ میں201بچے لا پتہ ہوئے۔ جن میں سے 163واپس آگئے ہیں جولائی کے مہینے میں36بچے لا پتہ ہوئے 24 بچے خود واپس لوٹ آئے5کو پولیس نے بازیاب کرایا۔7بچوں کی تلاش جاری ہے ا ور انکشاف کیا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور میں200بچے ایسے ہیں جو اپنا یا والدین کا نام نہیں بتا رہے وفاقی وزیر نسانی حقوق کامران مائیکل نے کہا کہ لاہور انتظامیہ ا و رپولیس کے ذمہ داران میڈیا کے ذریعے اصل حقیقت بیان کریں اور کہا کہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس لاہور میں منعقد کیا جائے جس میں لاہور ڈویژن کی انتظامیہ مدعو کی جائے۔

ای پیپر-دی نیشن