حملوں کے باوجودمہاجرین کو پناہ دیتے رہیں گے :جرمن چانسلر
برلن واشنگٹن (ا ے ایف پی +این این آئی+بی بی سی)جرمنی میں حالیہ پْر تشدد حملوں کے تناظر میں چانسلر مرکل نے سلامتی کو مزید یقینی بنانے کے لیے ایک نو نکاتی پلان کا اعلان کیا ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ان مجوزہ اقدامات میں پناہ کی درخواست دینے والوں کو جبراً واپس بھیجنے کے لیے موجود قانونی رکاوٹیں کم کرنا، مہاجرین میں بڑھتی انتہا پسندی سے خبردار کرنے کے ایک پیشگی نظام کا اجراء اور بڑے دہشت پسندانہ حملوں کی صورت میں جرمن فوج کو بھی ملک کے اندر سرگرم کرنا شامل ہیں۔جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ملک میں سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ حالیہ حملوں کے بعد بھی جرمنی پناہ کے متلاشیوں کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔ جرمن چانسلر میرکل اور امریکی صدر باراک اوباما نے ایک ٹیلی فون گفتگو میں بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ صدر نے پرتشدد واقعات پر افسوس کیا اور مذمت کی ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے قرار داد شام میں بچے کا سر قلم کرنے کی مذمت کی ادھر جرمنی میں پولیس نے سیلفی کمیونٹی کی مسجد اور 18 اپارٹمنٹ کی تلاشی لی۔ ریاستی وزیر داخلہ نے بتایا ہالڈشیم کے علاقے میں کارروائی میں کمانڈوز نے بھی شرکت کی۔ مرکزیہ پابندی کے سلسلہ میں اقدام کیا گیا الزام (ڈی آئی کے) میں بنیاد پرستی کی تعلیم دی ہے مسجد سے متعدد افراد شام اور عراق گئے تاکہ داعش میں شامل ہو سکیں۔ پناہ کے متلاشی افراد کے حالیہ حملوں میں ملوث ہونے کے باوجود پناہ گزینوں کو لینے کی ان کی خواہش تبدیل نہیں ہو گی۔حملہ آور ہماری برادری کی سوچ، ہمارے کھلے پن اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنے کی خواہش کو کمزور کرنا چاہتے تھے، ہم اسے واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔‘مرکل سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی تجویز بھی دی ہے۔ ان اقدامات میں معلومات کا تبادلہ، ویب پر بات چیت کرنے والوں کی نگرانی اور انٹرنیٹ پر اسلحے کی فروخت پر قابو پانا شامل ہے۔ پریس کانفرنس میں کہا کہ پناہ کے متلاشی وہ افراد جو ان حملوں میں ملوث تھے نے اس ملک کو شرمندہ کیا ہے جو ان کا خیر مقدم کر رہا ہے۔تاہم انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’جو لوگ جنگ سے دور بھاگ رہے ہیں وہ تحفظ کا حق رکھتے ہیں اور جرمنی مستحق افراد کو پناہ دینے کے ہمارے اصولوں پر کاربند رہے گا۔ عالمگیریت کے اس دور میں یہ ہماری تاریخی ذمہ داری اور تاریخی چیلنج ہے۔ ہم پہلے ہی گذشتہ 11 ماہ میں بہت بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں۔