مراد علی شاہ قائم علی شاہ سے مختلف نہیں ہونگے
سینئر ترین سیاستدان پیپلز پارٹی کیلئے تین نسلوں کے وفادار قائم علی شاہ نے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ اپنے ہاتھ سے لکھا اور اپنے نام کے نیچے 201 لکھا۔ لگتا ہے کہ وہ بہت پہلے سے ایک مستعفی آدمی کے طور پر کام کر رہے تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کیلئے اتنے وفادار تھے کہ ہر آدمی کی بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے اور بلا سوچے سمجھے تعمیل کرتے تھے۔
ان کیلئے پیپلز پارٹی کے کرپٹ لوگ بھی کہتے تھے کہ وہ انتہائی دیانت دار شخص تھے۔ ایک روپے کی کرپشن بھی ان سے منسوب نہیں ہے۔ سابق گورنر پنجاب انتہائی معقول اور دوست سیاستدان مخدوم احمد محمود نے ان کی دیانت کیلئے حلفاً کہا کہ پیپلز پارٹی میں ان جیسا سچا وفا حیا والا اور دیانت دار شخص کوئی نہیں ہے۔
انہیں شہید بی بی بینظیر بھٹو نے وزیراعلیٰ سندھ بنایا تھا۔ 2016ء تک وہ تین بار وزیراعلیٰ رہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے بھی انہیں مسلسل وزیراعلیٰ بنایا۔ پاکستان میں کسی وزیراعلیٰ نے کچھ نہیں کیا۔ البتہ لوٹ مار کی۔ کرپشن کی اور اقربا نوازی کی۔ مگر ایسا کوئی کام قائم علی شاہ نے نہیں کیا۔ انہوں نے ویسے بھی کچھ نہیں کیا تو مجھے بتایا جائے اور کس وزیراعلیٰ نے کچھ کیا ہے۔
اب جو ان کی جگہ وزیراعلیٰ بنے ہیں۔ وہ بھی کچھ نہیں کریں گے۔ قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ کی عمر میں فرق ہو گا۔ مگر کارکردگی کے اعتبار سے کچھ فرق نہیں ہو گا۔ کام کیلئے جوانی اور بڑھاپے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ بلاول کو نجانے قائم علی شاہ سے کیا پرخاش تھی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنے بیٹے کی مسلسل تکرار کے بعد یہ فیصلہ کیا۔
آصفہ بھٹو زرداری نے قائم علی شاہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے جو بہت مستحسن اور قابل تعریف ہے۔ ایسے شخص کی تعریف جو ملنگ قسم کا سیاستدان ہو‘ قیادت کا وفادار ہو وہ واقعی تعریف کے قابل ہے۔ اس کی جو تعریف کرے‘ وہ بھی قابل تعریف ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر دوست منور انجم بھی وڈے سائیں کے معترف ہیں۔ منور انجم شہید بی بی ’’صدر‘‘ زرداری اور بلاول کیلئے بھی بہت عزت محبت رکھتے ہیں۔
قائم علی شاہ نے اپنے بچوں کی کبھی سیاسی سرپرستی نہیں کی۔ صرف ایک نفیسہ شاہ سیاست میں آئی ہے مگر وہ ایک نفیس خاتون ہیں۔ ان کی وجہ سے کوئی مسئلہ قائم علی شاہ کیلئے کبھی پیدا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ کبھی ان کے کسی رشتہ دار کی وجہ سے بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔
قائم علی شاہ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ بھٹو صاحب بینظیر بھٹو اور ’’صدر‘‘ زرداری نے ہمیشہ ان پر اعتماد کیا۔ وہ ہر طرح کے اعتماد پر پورے اترے۔ وہ زندگی میں کبھی لوٹے نہیں بنے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی نہ چھوڑی۔ پارٹی کیلئے جیل کاٹی اور سختیاں بھی جھیلیں۔
قائم علی شاہ بے خوابی کے مریض ہیں رات بھر نہیں سوتے۔ صبح تین چار بجے بستر پر لیٹتے ہیں۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران بڑے بڑے بحران آئے مگر وہ کبھی نہیں گھبرائے۔ ہمیشہ بہت محنت اور لگن کے ساتھ سرکاری امور نپٹائے۔ وزیراعلیٰ کے طور پر بہت چھوٹے چھوٹے کام کر لیتے جو جونیئر افسران کو کرنا چاہئے۔ نہایت شریف النفس انسان ہیں۔
ان کا خیر پور میں ایک عام سا گھر ہے۔ کوئی جائیداد وغیرہ وہاں نہیں بنائی۔ ایک درمیانے سائز کا گھر کراچی میں بنایا ہے۔ ان کیلئے کئی افواہیں اڑائی جاتی رہی ہیں۔ وہ مست رہنے والے آدمی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’’بھنگ‘‘ پیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سگریٹ تک نہیں پیتے۔
گورننس کے معاملے میں کمزور ثابت ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں کوئی حکمران گڈ گورننس تو کجا گورننس کے لحاظ سے بھی قابل ذکر نہیں۔ خیبر پی کے میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کہتے ہیں کہ عمران خان برسوں کا کام مہینوں میں چاہتے ہیں جبکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ خٹک صاحب نے برسوں کا کام بھی نہیں کیا ہے۔
بیوروکریسی پر قائم علی شاہ کا کنٹرول بہت ڈھیلا ڈھالا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے داماد اور بیٹی کو بھی بیوروکریسی سے نہ بچا سکے۔ بیوروکریسی اصل میں برا کریسی ہے اور قائم علی شاہ دل کے بہت اچھے آدمی ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے۔ کرپشن کوئی کرتا ہے اور الزام قائم علی شاہ پر لگتا ہے مگر وہ اس طرح کے آدمی ہیں کہ کرپشن کا الزام بھی ان پر نہیں لگ سکتا۔ کئی افسران قائم علی شاہ کو بائی پاس کر کے ’’صدر‘‘ زرداری اور فریال تالپور سے رابطہ رکھتے ہیں مگر قائم علی شاہ دونوں کے وفادار ہیں۔ ان کی حیثیت قربانی کا بکرا اور بگلا بھگت کی ہو کے رہ گئی ہے۔
بڑے شاہ صاحب کی عمر 83 برس ہو چکی ہے مگر اب بھی وہ جوان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا کیا علاج کہ انہیں بھولنے کی عادت بھی ہے۔ وہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہیں۔ وہ کسی کے فرنٹ مین نہیں ہیں مگر انہیں ہی آگے کر دیا جاتا ہے۔
نوائے وقت کے مشہور صحافی اور پہلے کالم نگار م۔ ش کے داماد اور میرے دوست میاں عزیز الرحمن ملازمت کے سلسلے میں سندھ کے مختلف علاقوں میں رہے ہیں۔ وہ قائم علی شاہ کے گھرانے اور ان کیلئے بہت جان پہچان رکھتے ہیں۔ میاں عزیزالرحمن بہت اعلیٰ خوبیوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قائم علی شاہ بہت اچھے انسان ہیں اور ان کے گھرانے کو لوگوں نے ہمیشہ پسند کیا ہے اور انہیں ووٹ بھی دیا ہے۔ قائم علی شاہ کے علاوہ ان کی بیٹی نفیسہ شاہ اپنے علاقے سے ہمیشہ کامیاب ہوئی ہیں۔ قائم علی شاہ اشعار سناتے رہتے ہیں۔ شعر کی غلطی کو غلطی نہیں سمجھتے۔ ویسے بھی غلط فہمی بڑی غلطی ہوتی ہے۔ قائم علی شاہ غلطی بھی دانستہ نہیں کرتے مگر غلط فہمی پھیلانا ان کی فطرت میں نہیں ہے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ کے طور پر مراد علی شاہ کو لایا گیا ہے۔ اللہ کرے وہ امیدوں پر پورا اتریں۔ مگر ان سے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔ پاکستان میں کسی حکمران نے کچھ نہیں کیا۔ مراد علی شاہ بھی کچھ نہیں کریں گے تو کیا قائم علی شاہ ان سے بہتر وزیراعلیٰ نہ تھے؟