• news
  • image

کتاب اور خواب

اردو پنجابی اور انگریزی کی لسانی برتری کے لیے لڑنے والے عالمی سطح کے دانشور اور استاد مایہ ناز ادیب ڈاکٹر انوار احمد کی اس بات پر غور کریں۔ پنجابی‘ اردو‘ انگریزی بولنا تو اتنا اہم نہیں سچ بولنا اہم ہے۔ میری خواہش ہے درسگاہوں میں خوف نہ ہو اور تاریخ کو مسخ نہ کیا جائے ایسی باتیں ہمارے علمی اور تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں بتائی جاتیں۔ ادبی گفتگو میں سیاسی بات کو کتنی گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے مگر لوگ مارشل لا کے مرد آہن کو تلاش کرتے ہیں۔
یہ گفتگو انہوں نے ایک معروف اور منفرد ادبی میگزین ”بجنگ آمد“ میں ایک انٹرویو کے دوران کی۔ ”بجنگ آمد“ کے ایڈیٹر بے شمار شاعر اختر شمار ہیں۔ ان کی بہترین نثری کتاب ”جی بسم اللہ“ انہی دنوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے لیے ادیبہ شاعرہ دانشور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے ایک شاندار مضمون لکھا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے کالج میگزین کا نام ”پیلوں“ رکھا ہے۔ سرائیکی زبان کے بین الاقوامی مرتبے کے شاعر خواجہ فرید نے کہا
آ چنوں رل یار پیلوں پکیاں نی وے
ایک بڑے شاعر نے قومی اور عالمی سطح کو رلا ملا دیا ہے۔ اپنی معاشرت کی ایک مثالی سرگرمی میں اجتماعیت کا کیسا رنگ بھر دیا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے مٹی اور ریت کے امتزاج سے میگزین کا مزاج بنانے کی کوشش کی۔
مجھے لیہ کالج ملتان کا میگزین ”تھل“ بھی ملا ہے۔ پیلوں تھل کا پھل ہے۔ میں نے ایف اے گورنمنٹ کالج لیہ سے کیا تھا۔ تب لیہ شہر میں ایک بڑا شاعر نسیم لیہ کی دھوم تھی۔ میرے ساتھ ان کی بہت دوستی رہی۔ لاہور میں بھی ان کے ساتھ تقریبات ہوئیں مگر انہوں نے اپنی مٹی کی پہچان کو اپنے نام کا حصہ بنایا۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ ایک کی شادی میرے عزیز بڑے بیورو کریٹ لیاقت علی خان نیازی سے ہوئی ہے۔ نسیم لیہ کی دوسری بیٹی نے شعر و ادب کے ذوق و شوق کی وجہ سے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہم نے مل کر نسیم لیہ کو یاد کیا۔
لیہ کالج میگزین ”تھل“ کے لیے ڈاکٹر افتخار بیگ نے بہت محنت کی ہے۔ اس ادبی سرگرمی میں وہ طلبہ و طالبات خصوصاً سونیا کنول اور عامر رضا کو بھی ساتھ ساتھ لے کے چلتے۔ میگزین کے لیے ”ابتدائیہ“ سونیا کنول کو لکھنا چاہیے تھا۔
نامور نعت خواں منظورالکونین انتقال کر گئے۔ یہ خبر مجھے نامور نعت گو شاعر حفیظ تائب کے بھائی مجید منہاس نے دی۔ واہ کینٹ میں انہیں بہت بڑی نماز جنازہ نصیب ہوئی۔ ایک کتاب ”حضور و سرور“ منظور صاحب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے بہت جذبے والے عاشق رسول نوجوان ارسلان احمد ارسل نے مرتب کی ہے۔ میری رائے بھی کتاب میں شامل ہے۔ ”ان کی آواز حفیظ تائب کے نعتیہ کلام سے لوگوں کو حضور کریم کی روح سے ہم کلام کرتی ہے۔ لگتا ہے۔ یہ آواز صرف نعت خوانی کے لیے بنائی گئی ہے۔“ وہ میرے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ جلدی میں ایک تقریب میں آ گئے اور مجھے کہا کہ میں آپ کی تقریر سننے کے لیے آیا ہوں۔ انہیں قومی ایوارڈ بھی ملا مگر اصل روحانی ایوارڈ دربار رسول سے ملا ہے۔
قلم فاﺅنڈیشن اور مقبول اکیڈمی کے زیراہتمام قومی اور پاکستانی موضوعات پر ادبی اور فلاحی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ عبدالستار عاصم اور مقبول احمد ملک اس عظیم کام میں پیش پیش ہیں۔ قلم فاﺅنڈیشن کے زیراہتمام ”جہان قائد“ کا بہت چرچا ہے۔ یہ اہم کتاب عبدالستار عاصم نے مرتب کی ہے۔ ایک ایڈیشن نکل چکا ہے۔ قائداعظم کے لیے یہ ایک منفرد اور انوکھی تخلیقی معرکہ آرائی ہے۔ عاصم نے بہت لگن سے کام کیا ہے۔ یہ ولولہ انگیز کتاب دوستوں کو پڑھنا چاہیے۔ مقبول اکیڈمی کے زیراہتمام ایک بڑی کتاب ”سو عظیم شاعر اور نثر نگار“ ہے جسے سرگوھا کے انتھک مصنف دانشور ہارون الرشید تبسم نے مرتب کیا ہے۔ اس میں بڑے بڑے لکھنے والے شامل ہیں۔ میرے قبیلے کے سردار منیر نیازی کے حوالے سے تحریر بہت اہم ہے۔ کتاب میں بجا طور پر اشفاق احمد شامل ہیں مگر بانو قدیسہ (بانو آپا) کو بھلا دیا گیا ہے۔ یہ بھول ناقابل معافی ہے۔ بانو آپا ایک سانجھی تخلیقی اور ادبی دولت ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ کوتاہی ہارون الرشید تبسم سے کیسے ہوئی ہے۔ انہوں نے تقریباً پچاس کتابیں مرتب کی اور تصنیف کی ہیں۔ وہ سرگودھا کی ایک بڑی ادبی شخصیت ہیں۔ اتنا کام کرنے والا اب پاکستان میں کم کم ہو گا۔ اب وہ بانو قدسیہ پر ایک پوری کتاب مرتب کریں۔ موجود لمحے میں وہ پاکستان کی سب سے بڑی خاتون ہیں۔ اللہ کرے وہ بہت دیر تک ہمارے درمیان موجود رہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ میرے دیس کی سوہنی عورتو ایک بار بانو آپا سے ضرور ملو۔ وہ اتنی بڑی شخصیت ہیں کہ ان سے سب لوگ ملیں۔ ان کے پاس حاضر ہونا ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔
ایک سرکاری ادبی میگزین ”ماہ نو“ کا جوش ملیح آبادی نمبر شائع ہوا ہے۔ یہ ایک شاندار میگزین ہے۔ سرکار کی طرف سے ایک ادبی میگزین کی مسلسل اشاعت قابل تعریف ہے۔ اس کے نگران اعلیٰ بہت ذوق و شوق والے محمد سلیم ہیں۔ ان کے ساتھ فون پر ہی بات کر کے سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ مجلس ادارت میں موئید بخاری‘ شبیہ عاس اور مریم شاہین شامل ہیں۔ مریم کبھی مجھ سے کوئی تحریر لینے کے لیے گھر تشریف لاتی ہیں مگر یہاں میری اہلیہ رفعت نیازی سے اس کی زیادہ دوستی ہو گئی ہے۔ میگزین میں بہت اعلیٰ کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ بہت نادر اور خوبصورت تصاویر بھی موجود ہیں۔ چار سو صفحات پر مشتمل یہ ایک ضخیم نمبر ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ جوش سب کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ یہ میگزین ہر طرح کی دلچسپی کا آئینہ دار ہے۔ اس میں کنور مہندر سنگھ بیدی اور تنویر قیصر شہزاد کی تحریریں مجھے پسند آئیں۔
ہمارے شہر میں کالے رنگ کا رازدار ایک ہی شخص ہے۔ گہرے اسرار سے سجے ہوئے آدمی کا نام بابا یحیٰی خان ہے۔ وہ ایک پراسرار شخصیت بھی ہیں جو پراسرار نہیں ہوتا وہ پرکشش بھی نہیں ہوتا۔ پیا رنگ کالا‘ کاجل کوٹھا اور شب دیدہ کے بعد بابا جی کی نئی کتاب ”لے بابا ابابیل“ شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ اس کی قیمت پانچ ہزار ہے جب اس کی قیمت زیادہ کی بات برادرم اختر شمار نے بابا جی سے کی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ اگلی کتاب کی قیمت ایک لاکھ روپے رکھوں گا۔ مجھے خوشی ہے کہ کسی کتاب کی قیمت تو اتنی ہے۔ بابا جی سے عقیدت مند عورتیں اور مرد ان کے ڈیرے پر آ کر کتاب خرید کر لے جاتے ہیں۔ بابا جی کی کتاب ایک خواب کی طرح ہوتی ہے جسے لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب لوگ خواب اور راز سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔ یہی دونوں چیزیں بابا جی کے پاس بہت ہیں۔ کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں۔ ان میں رہنا چاہیے۔ یادوں کا ایک خزانہ ان کتابوں میں ہے۔ پڑھیے اور دل کے امیر ہو جائیے۔
ایک بہت بڑے آرٹسٹ پڑھے لکھے انسان محمد قوی خان کی بات سنیے۔ رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے سے ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ رشوت دینے والا زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کوئی رشوت دے گا تو دوسرا لے گا۔ قوی خان کا ذکر آتے ہی مفتی قوی یاد آ جاتا ہے۔ اسے چاہیے کہ قندیل بلوچ کے قتل میں ایک سچے عاشق کا کردار ادا کرے۔ اس سے پہلے کہ قندیل کا قاتل بھائی بتا دے مفتی صاحب کو کھل کر بولنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ قندیل بلوچ زندہ رہ پاتی تو وہ ایک کتاب لکھتی۔
میں نے کالم میں پہلے علامہ عبدالستار عاصم کا ذکر کیا۔ ان کی ایک کتاب ابھی شائع ہوئی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ”پاکیزہ زندگی“ رکھا ہے۔ یہ کسی عالم دین کی کتاب نہیں ہے۔ زندگی میں صفائی کے جو معاملات ہیں ان پر بہت آسانی سے اور آسودگی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اجالا بہت صاف ستھرا منظر ہوتا ہے۔ اصل میں تو انسانوں کو اجالے کی طرح اجلا ہونا چاہیے۔ پاک صاف رہنا ہر انسان کا فرض ہے۔ اس میں مسلم اور غیرمسلم کی تمیز نہیں ہے۔ مگر ہمارے دین فطرت میں واضح ہدایات موجود ہیں کہ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ماحول کو پاکیزہ یعنی صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے بڑے کھلے دل سے بہت گہری باتوں کو بھی بہت روانی اور فراوانی سے بیان کر دیا ہے۔ مسائل وضو کے ساتھ فضائل وضو بیان کر دئیے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن