• news

فرینڈلی اپوزیشن نے حکومت کو پریشان نہیں کیا‘ راجہ ظفر الحق‘ اعتزاز احسن کا مفلہمانہ کردار

بالآخر حکومت سینیٹ کے250ویں سیشن کی 10ویں (آخری) نشست میں ’’متنازعہ سابر کرائمز بل2016ئ￿ ‘‘ متفقہ طور منظور کرانے میں کا میاب ہو گئی جس کے سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا عام تاثر تھا کہ قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن سینیٹ کے رواں اجلاس میں پانامہ پیپرز انکوائری ایکٹ کا پرائیویٹ بل سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیں گے لیکن سینیٹ کا اجلاس دو ہفتے تک جاری رہنے کے باوجود انہوں نے بل جمع نہیں کرایا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پانامہ پیپرز ایکٹ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں جمع کو سینیٹ کا اجلاس مجموعی طور پر پونے چھ گھنٹے تک جاری رہا اجلاس کے دوران نماز جمعہ کے لئے 38منٹ کا وقفہ کیا گیا جب کہ دو گھنٹے تک اجلاس کی کارروائی معطل رہی اس دوران بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے مذاکرات جاری رہے یہ بات قابل ذکر ہے قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق ہمہ وقت ایوان میں موجود رہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا سینیٹ کے250اجلاس میں’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘ نے حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں کئے وزیر اعظم محمد نواز شریف صحت یابی کے بعد پچھلے تیں روز سے مری میں اپنی گرمائی رہائش گاہ میں مقیم ہیں انہوں مری میں 7گھنٹے کا ’’میراتھن سیشن‘‘ کیا پارلیمنٹ کی لابیوں میں وزیر اعظم کی سرگرمیاں موضوع گفتگو بنی رہیں ’ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمنٰکی ایوان میں عدم موجودگی پر سینیٹ کا اجلاس گھنٹے تک معطل رہا۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا اظہار ناراضی کیا اور سینیٹ کے اجلاس کو معطل کردیا،اس دوران سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کے چیمبر میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوئے،اپوزیشن کی جانب سے سائبر کرائمز بل جو قومی اسمبلی سے منطور کیا گیا تھا میں 50سے زائد ترامیم بل میں شامل کرا لیں جنہیں حکومت نے منطورکرلیا۔ جس کے بعد سینیٹ کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایوان میں بل پیش کیا چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وزرا کے غیرسنجیدہ طرز عمل کا نوٹس لیا انہوں نے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن کے سائبر کرائمز بل پیش کرنے کے لئے اجلاس میں نہ آنے پر کہا کہ’’ لگتا ہے حکومت بل پاس نہیں کروانا چاہتی‘ وزرا بل پیش کرنے کے لئے بھی ایوان میں نہیں آتے ‘‘۔سینیٹ نے متنازعہ سائبر کرائمز بل 2016 اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ہائیکورٹ میں اپیل ہوسکے گی۔متعلقہ حکام اس بل پر عملدرآمد کے حوالے سے سال میں 2 مرتبہ پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کریں گے۔سیکیورٹی ایجسنیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔بل میں 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی)کی 30 دفعات لاگو ہوسکیں گی۔پیمرا لائسنس کے حامل ٹی وی اور ریڈیو چینلز اس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔سائبر دہشت گردی پر 14سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7 سال سزا ہوگی۔دھوکہ دہی پر 3سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال سزا ہوگی۔انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے بل برائے 2015 کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔بعدازاں رواں برس 14 اپریل کو قومی اسمبلی نے مذکورہ بل منظور کیا، تاہم بل کو قانونی شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔ اس بل کی سوسائٹی نے شدید مخالفت کی اس کے تحفظات دور کئے بغیر بل منظور کیا گیا پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے(اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔سائبر کرائمز کی ایک عام تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ’’ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے‘‘۔عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنے آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے۔ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی(کسی ای میل اکا?نٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ بل میں 50سے زائد اپوزیشن کی جانب سے ترامیم پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے جو موجودہ صورتحال میں بہترین ڈیل ہے ورنہ قومی اسمبلی کی جانب سے منظورشدہ نامکمل اور ناکافی بل پاس کروالیا جاتا،بل پر چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کو راضی کیا ہے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا ہے کہ موجودہ وقت میں سائبر کرائمز کی روک تھام کیلئے کوئی قانون نہیں تھا،بل میں معصوم شہریوں کا تحفظ کیا گیا ہے،21نئے جرائم شامل کئے گئے ہیں،اپوزیشن کی ترامیم کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے کو شامل کیا ہے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ بل میں نے نہیں پڑھا حکومت نے بل کے حوالے سے جمعیت علمائ￿ اسلام کو اعتماد میں نہیں لیاگیا،یہ بتایا جائے کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف مواد کی روک تھام کے حوالے سے بل میں کوئی شق موجود ہے یا نہیں اگر نہیں تو پھر بل کی حمایت نہیں کریں گے جمعہ کو حکومت کی طرف سے وقفہ سوالات میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز،وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد،زیر برائے سمندر پار پاکستانیز پیر صدر الدین راشدی ،وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ ریگولیشنز سائرہ افضل تارڑ نے ارکان کے سوالات کے جواب د ئیے سینٹ میں انسانی سمگلنگ سے متعلق تحریک التوائ￿ بحث کے لئے منظور کرلی گئی۔جمعہ کو ایوان میں تحریک سینیٹر عتیق شیخ نے پیش کی سینیٹر طلحہ محمود نے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے رن ویز کے ڈیزائن میں نقائص سے متعلق اٹھائے گئے معاملے‘ سینیٹر چوہدری تنویر خان کی جانب سے پولی کلینک اور پمز کے امور میں بدانتظامی سے متعلق اٹھائے گئے معاملے اور اسلام آباد کے چڑیا گھر میں جانوروں اور خاص طور پر ہاتھی کی حالت زار سے متعلق اٹھائے گئے معاملات پر کمیٹی کی رپورٹیں ایوان میں پیش کیں۔سینٹ نے ملک میں خواتین کو زندہ جلائے جانے کے واقعات کی روک تھام کے لئے تعزیرات پاکستان کے احکامات وضع کرنے کے حوالے سے فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کی منظوری دیدی۔ جمعہ کو ایوان میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحقٰ ڈار نے بتایا کہ انڈونیشیا میں پاکستانی شہری کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا گیا ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ’’ آپ کی اور سینٹ کی مداخلت کی وجہ سے سزا موخر ہوئی ہے‘‘۔

ای پیپر-دی نیشن