ایک سال میں پراپرٹی بیچنے پر10 فیصد ٹیکس، قیمتوں کا تعین ایف بی آر کرے گا: اسحاق ڈار
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) حکومت، رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز کے درمیان جائیداد کے حقیقی ویلیو کے تعین کے لیے جاری مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جن کے تحت حکومت ایمنسٹی سکیم‘ یا کالا دھن سکیم جیسا نام دئیے بغیر ماضی میں جائیداد کی خرید پر انکم ٹیکس آرڈی نینس کے سیکشن III سے تحفظ دے گی۔ پانچ فیصد ٹیکس دے کر اپنی جائیداد کو قانونی قرار دلایا جاسکے گا اس کی خرید کیلئے سرمایہ کے ذریعے کو دریافت نہیں کیا جائے گا۔ سیکشن 111 اپنی آمدن کو چھپانے کے متعلق ہے وفاق حکومت اور بلڈرز ایجنٹس کے درمیان ملک کے 18 شہروں جن میں لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ شامل ہیں۔ جائیداد کی حقیقی ویلیو کے تعین کے چارٹ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ حکومت نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور بلڈرز کی طرف سے تیار کیا جانے والا چارٹ معمولی ردوبدل کے تحت قبول کرلیا۔ اس سے ملک کے مختلف شہروں میں ڈی سی ریٹ میں زیادہ شہروں میں 20 سے 30 فی صد تک اضافہ ہوگا۔ کئی مقامات پر یہ شرح اس سے بھی زائد ہے ایف بی آر مختلف شہروں میں جائیداد کی ویلیوایشن کا چارٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے جاری کرے گا۔ پراپرٹی کی قیمتوں کا تعین ایف بی آر جن شہروں میں ابھی ویلیو یشن نہیں ہوئی یہ وہاں نئے نوٹیفکیشن کے اجراء تک ڈی سی ریٹ یکم جولائی 2016ء سے قبل جو پراپرٹیز خریدی تھی اگر ان کی ہولڈنگ کی میعاد تین سال سے کم ہو تو پانچ فیصد کیپٹل گین ٹیکس لگے گا۔ تاہم اگر ہولڈنگ پیریڈ تین سال سے زائد رہا تو کیپٹل گین ٹیکس کا استثنی ہوگا۔ حکومت اور ایجنٹس بلڈرز کے درمیان جو ویلیویشن کا تعین ہوا ہے اس کا استعمال کیپٹل گین ٹیکس ودھ ہولڈنگ ٹیکس اور انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن III کے مقاصد کیلئے ہوگا (یہ وہی سیکشن ہے جو آمدن چھپانے کے بارے میں ہے جس کا ذکر خبر کے ابتدائی حصہ میں کیا گیا) ہے۔ 40 لاکھ روپے تک کی جائیداد پر کیپٹل گین ٹیکس نہیں لگے گا۔ اس سے قبل یہ 30 لاکھ روپے تھا وزیر خزانہ نے کہا کہ اس معاہدہ کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ جہاں بھی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہو کی جائے گی انہوں نے کہا کہ آج کا معاہدہ 30 جون 2017ء تک موثر رہے گا جبکہ آئندہ بجٹ سے قبل دوبارہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر بات چیت کی جائے گی اور ایف بی آر ازسرنو نیا نوٹیفکیشن جاری کرے گا (یکم جولائی 2017ء سے نافذ ہو گا) ہی موثر ہوگا۔ کیپٹل گین ٹیکس کے مقصد کیلئے جائیداد کو اپنے پاس رکھنے کی میعاد جو بجٹ میں پانچ سال کی گئی تھی اب گھٹا کر 3 سال کر دی گئی ہے۔ سٹیل اسٹیٹ ایجنٹس اس کے معیاد 2 سال کرانا چاہتے تھے۔ اسحاق ڈار ‘ایف پی سی سی آئی کے صدر عبدالروف عالم‘ اسٹیٹ ایجنٹس کے نمائندہ چوہدری روف نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا۔ حکومت طے پانے والے مجوزہ معاہدہ کو قانونی تحفظ دے گی اس سلسلے میں آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس کے مقصد کیلئے 5 سال سے کم کے ہولڈنگ پر 10 فی صد ٹیکس تھا اب اس کے تین سلیب بنا دئیے گئے ہیں۔ جس کے تحت اگر ہولڈنگ کی میعاد ایک سال تک ہو تو 10 فی صد ٹیکس لگے گا۔ اگر ہولڈنگ کی معیاد ایک سے دو سال تک ہو تو 7.5 فی صد کیپٹل گین ٹیکس دینا ہو گا۔ 2 سے تین سال کی ہولڈنگ کے بعد فروخت پر 5 فی صد کیپٹل گین ٹیکس ہوگا۔ تین سال سے زائد میعاد کے بلا فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس سے استثنی حاصل ہوگا۔ صوبائی حکومتوں سے رابطہ قائم کے لیے کیا جائے گا وہ بھی اسی چارٹ کو اپنالیں اس سے ان کو ٹیکس کم کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ بلڈرز اور ایجنٹس کے نمائندوں کے پروفیشن کا اب حکومت کو کافی ریونیو ملے گا مگر ابھی اس کا تخمینہ نہیں بتایا جاسکتا۔ فنانس بل میں فائلرز اور نان فائلرز کے لیے جو ریٹ رکھے گئے تھے وہ جاری رہیں گے۔ نان فائلرز پر 0.4 ود ہولڈنگ ٹیکس کی مدت میں 31 اگست تک توسیع دے دی گئی ہے۔ اب قانون واضح ہوگیا ہے تاہم ابھی سارا سفر طے نہیں کیا پراپرٹی کے حوالے سے کسی سے بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا اس کامیابی پر وزیراعظم نوازشریف مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس سے معیشت آگے جائے گی۔ ایف پی سی سی آئی کے صدر عبدالروف عالم نے کہا ہے کہ حکومت نے ہمارا مطالبہ مان لیا ہے جس پر حکومت کے شکریہ ادا کرتے ہیں ایجنٹس کے نمائندے چوہدری روف نے کہا کہ اب پراپرٹیز کا سیکٹر صنعت میں بدل جائے گا اور اس سے حکومت کو فائدہ ہوگا۔ ہمارا مطالبہ جائز تھا جسے وفاق حکومت نے تسلیم کرلیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ کوئی نئی ایمنسٹی اسکیم متعارف نہیں کرائی تاہم سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے صوبے اس ٹیکس میں کمی کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اگست میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیلئے اوگرا کی سمری مسترد کردی اور اگست میں تیل مصنوعات کی قیمتیں جولائی کی سطح پر برقرار رہیں گی۔ وزیر خزانہ نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کسی اضافہ سے منع کیا ہے۔ پاکستان میں تیل کی قیمتیں خطے کے تمام ممالک کے مقابلہ میں کم ہیں۔ حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کیا ہے جبکہ دوسرے ممالک نے نہیں کیا۔یہ تاثربھی غلط ہے کہ حکومت تیل کی مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس لے رہی ہے۔ 2013ء میں پٹرول پر فی لیٹر 24روپے 70پیسے ٹیکس لیا جا رہا تھا۔ اس میں 14 روپے 70 پیسے سیلز ٹیکس اور 10 روپے پٹرولیم ترقیاتی لیوی تھی۔ اب پٹرول پر فی لیٹر 17 روپے 53 پیسے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ اس میں سیلز ٹیکس 9.34 پیسے فی لیٹر جبکہ لیوی 8 روپے 19 پیسے فی لیٹر ہے۔ اس طرح سوا سات روپے ٹیکس کم کیا گیا ہے۔ ڈیزل پر 2013ء میں 15 روپے 86 پیسے فی لیٹر ٹیکس تھا۔آج بھی اتنا ہی ہے۔ مٹی کے تیل پر 2013ء میں 20 روپے 30 پیسے فی لیٹر ٹیکس تھا جبکہ آج 25 روپے 15 پیسے فی لیٹر ہے۔ ہائی اوکٹین اورلائٹ ڈیزل پر بھی 2013ء کے مقابلہ میں کم ہے۔ مٹی کے تیل کی عدم دستیابی کی شکایات کا نوٹس لیا ہے۔ اوگرا اور وزارت پٹرولیم کو بھی اس سے آگاہ کیا جائیگا۔ اگست میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھانے سے 2 بلین روپے کا نقصان ہوگا جو حکومت اپنے وسائل سے ادا کریگی۔ اوگرا نے پٹرول کی قیمت 2 روپے 12 پیسے فی لیٹر‘ ڈیزل 0.26 پیسے فی لیٹر‘ مٹی کا تیل 3 روپے 94 پیسے فی لیٹر بڑھانے کی سفارش کی تھی۔ اگست میں قیمت پٹرول 64 روپے 27 پیسے فی لیٹر‘ ڈیزل 72 روپے 52 پیسے فی لیٹر‘ کیروسین آئل 43 روپے 25 پیسے فی لیٹر‘ لائٹ ڈیزل 43 روپے 35 پیسے فی لیٹر ہوگی۔