ریاست کو معلوم نہیں بچے کیوں اغوا ہورہے ہیں:سپریم کورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے پنجاب میں بچوں کے اغوا میں ملوث گروہوں کا پتہ چلانے اور بچوں کی بازیابی کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ریاست کو معلوم نہیں بچے کیوں اغوا ہورہے ہیں۔ بچوں کے اغوا کی وجوہات اور محرکات معلوم کرنا ضروری ہے کہ بچے کیوں اغوا کئے جا رہے ہیں‘ اغوا کرنے والے گروہ ایک دن میں نہیں بن جاتے۔ عدالت نے مزید قرار دیاکہ مغوی بچوں کی بازیابی پہلی ترجیح ہے اور انہیں جلد بازیاب کرایا جائے۔ عدالت نے یہ ریمارکس پنجاب میں بچوں کے اغوا کے معاملے پر لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران دیئے۔ عدالت نے مزید قرار دیا کہ بچہ اغوا ہوا تو پہلی اور سب سے زیادہ ذمہ داری پولیس کی ہے۔ دوران سماعت ایڈیشنل آئی جی پنجاب، سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی سربراہ صبا صادق بھی پیش ہوئیں۔ سینئر سول جج راولا کوٹ یوسف ہارون نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا2 سال پہلے اغوا ہوا لیکن ’’پولیس تعاون نہیں کر رہی اور ملزم کی پشت پناہی کررہی ہے۔ تین لاپتہ بچوں کے والدین بھی عدالت میں پیش ہوئے اور پولیس پر عدم اعتماد کا اظہا کرکے اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے۔ مغوی بچوں کے والدین نے کہ پولیس نے بچوں کو بازیاب کرانے کے بجائے ٹائم ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب میں بیگار کیمپوں کے خاتمے کیلئے کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ پارکوں میں جانے والے بچے اغوا ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے اغوا پر ہم بھی دکھی ہیں۔ عدالت نے تینوں مغویوں کی بازیابی کیلئے آئی جی کو اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر تعینات کرنے کی ہدایت کی جبکہ سینئر سول جج کے بیٹے کی بازیابی کی ہدایت کرتے ہوئے تین ہفتے میں کارکردگی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالتی معاون عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بچوں کے اغوا کی بازیابی کیلئے الگ سے فورم ہونا چاہئے۔ منشیات کے کیسز میں گرفتار بچوں کی ضمانت والدین کی بجائے دوسرے لوگ کرارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ہے جس میں عاصمہ جہانگیر، سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ بار کے نمائندے بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی بعد میڈیا سے گفتگو میں مغوی بچوں کے والدین نے کہاکہ وہ دو سال سے اذیت میں مبتلا ہیں۔ پولیس نے صرف وقت ضائع کیا اور کیس میں اب تک کوئی پیشرف نہیں ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس بہت سے متاثرین والدین کے آنسو پونچھے گا۔ مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے باہر مغوی بچوں کے والدین نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ انہوں نے پولیس کی ناقص کارکردگی اور عدم تعاون کیخلاف نعرے بازی کی۔ آئی این پی کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ موجودہ حالات میں بچے کسی دہشت گرد کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ بچوں کو کس مقصد کے لئے اغواء کیا جا رہا ہے۔ سول جج یوسف ہارون نے کہا کہ اس کا پانچ سالہ بیٹا سعد گھر کے باہر سے اغواء کر لیا گیا تھا ملزم شریف اﷲ کو گرفتار بھی کروا دیا تھا پولیس نا انصافی کررہی ہے۔ پولیس پر اعتماد نہیں پاک فوج سے مدد کے لیے کہا جائے جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پولیس کا ایسا رویہ افسوسناک ہے۔ عدالت کی اولین ترجیح ہے کہ بچوں کو بازیاب کرائے تاکہ مائوں کے دلوں میں ٹھنڈک پڑے۔ عدالت نے کہاکہ وہ دیگر تین صوبوں سے بھی بچوں کی گمشدگی کے حوالے سے ڈیٹا منگوائے گی۔