آصفہ بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی قیادت کرے گی
عمران خان کی تحریک ایک منتخب حکومت کے خلاف غیرجمہوری اور غیرضروری ہے۔ طلال چودھری کی طرح میری رائے صرف سیاسی بڑھک نہیں ۔ عمران جو کچھ جس طرح کر رہے ہیں یہ عمل ایک ناکامی اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ عمران خان نے صدر جنرل مشرف کے خلاف تحریک کیوں نہ چلائی تھی۔ تین سال کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل ہونے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف تحریک کیوں نہ چلائی۔ آخر وہ صرف نواز شریف کے خلاف تحریک کیوں چلاتے ہیں۔ اگر کرپشن تحریک کے لیے جواز ہے تو عمران خان جہانگیر ترین کے علاوہ کئی امیر کبیر لوگوں کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلاتے جو تحریک انصاف میں ہیں؟ کئی نواز شریف کے ساتھ تھے‘ یہ تو کبھی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں کبھی کسی کے ساتھ مسلم لیگ ن میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ طلال چودھری جہانگیر ترین میں کوئی فرق نہیں ہے۔
عمران خان جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ ڈکٹیٹروں اور پیپلز پارٹی کے حکمرانوں کے خلاف کبھی کچھ نہ کہا۔ کبھی کچھ نہیں کیا۔ آخر نواز شریف کے ساتھ عمران خان کو کیا پرخاش ہے۔ یہ پرخاش تو خارش کی طرح عمران کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ نواز شریف وزیراعظم ہیں اور عمران وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔
نواز شریف نے شوکت خانم کے لیے پلاٹ عمران کو دیا۔ پلاٹ سرکاری سہی مگر دیا تو نواز شریف نے ۔اور بھی امداد کی۔ کئی موقعوں پر تعاون کیا۔ ہمیشہ تعلق رکھا۔ شوکت خانم ہسپتال میں انتخابی مخالفت کے باوجود عیادت کے لیے گئے۔ عمران کی ایسی ایک بھی نیکی نواز شریف کے لیے نہیں ہے۔
میں نواز شریف کا ناقد بھی ہوں ان سے کچھ اختلاف ہے مگر کسی آدمی میں اگر کوئی بات ہو تو اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ نواز شریف کی ایک نیکی یہ ہے کہ ان کی کابینہ میں چودھری نثار بھی ہیں۔ ابھی مریم نواز شریف نے اس اعتماد کو ثابت کرنا ہے جو نواز شریف نے ان پر کیا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران نے کبھی شہباز شریف کے خلاف مسلسل تنقید نہیں کی ہے۔ اس کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جمہوری عمل کی خاطر ووٹرز نے پانچ سال کے لیے جسے منتخب کیا ہے تو کوئی ٹھوس وجہ کے بغیر انہیں استعفیٰ کے لیے مجبور کرنا غیرجمہوری عمل ہے۔ عمران خان حوصلہ کریں۔ اعتبار نہیں کر سکتے تو انتظار ہی کریں مگر وہ انتظار بھی نہیںکر سکتے۔
کیوں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ نواز شریف کو ووٹ دیتے ہیں۔ عمران خان کے بقول وہ اتنے ہی برے ہے تو آزاد کشمیر میں انہیں 32 سیٹیں کیوں ملیں۔ عمران کو صرف تین سیٹیں ملیں۔ عمران خان کچھ احساس کریں ’’صدر‘‘ زرداری سمجھائیں کہ زرداری صاحب گہرے سیاستدان ہیں۔ بڑی شان اور تحمل سے پانچ سال ایوان صدر میں گزارے۔ یہ کریڈٹ ’’صدر‘‘ زرداری کا ہے کہ عمران خان کو ان کے خلاف زبان چلانے کی جرات نہ ہوئی۔
بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف کو مودی کا یار کہا اور انہیں آزاد کشمیر کے لوگوں نے سرفراز کر دیا تو کیا انہوں نے مودی کے یار کو ووٹ دیے تو مودی کا یار کون ہوا جسے ’’آزاد کشمیریوں‘‘ نے مسترد کر دیا۔ عمران اور بلاول۔ پھر ان دونوں گٹھ جوڑ کر لیا اور پھر توڑ دیا۔ بلاول کو غور کرنا چاہیے کہ ان کے ساتھ بھٹو کی نسبت جڑی ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ زرداری کی نسبت کا ہی کچھ خیال کریں۔ زرداری تو پانچ سال ایوان صدر میں رہے۔ بلاول بھی پانچ سال وزیراعظم ہائوس میں گزار کے دکھائیں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے اصل سیاسی کردار ملک میں آصفہ بھٹو زرداری ادا کرے گی۔ بلاول اور بختاور کے نام ’’ب‘‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی طرح۔ آصفہ اپنے والد کی طرح انہی کی منزل پر پہنچے گی؟ آصفہ نے عظیم فلاحی شخصیت ایدھی صاحب کی عیادت کی تو بہت اچھا لگا۔ مجھے لگتا ہے کہ بہن بھائیوں میں کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ اچھے ماحول کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری آصفہ کی ہے۔
آصفہ سے گذارش ہے کہ وہ فاطمہ بھٹو سے بھی رابطہ کرے۔ میں فاطمہ بھٹو کو گمشدہ شہزادی کہتا ہوں۔ وہ سیاست سے بہت دور جا چکی ہے۔ اس کے والد مرتضیٰ بھٹو نے دانشمندی بے غرضی اور تحمل و تدبر کا ثبوت نہیں دیا تھا۔
فاطمہ بھٹو ایک جینوئن دانشور کے طور پر انگلستان میں ہے اور میرے خیال میں یہ کردار اس کی دانشور شخصیت کے لیے بہت موزوں ہے۔ غنویٰ بھٹو نے سیاست کی ’’ہیروئن‘‘ بننے کیلئے جلد بازی اور نااہلی کا ثبوت دیا۔ وہ آگے آ سکتی تھیں اگر فاطمہ بھٹو کے پیچھے رہتی۔ ایک بار میں نے بھٹو فیملی کیلئے ایک کالم لکھا تو اس نے برادرم فرخ سہیل گوئندی کے سامنے مجھے کہا کہ آپ ایک رومانٹک رائٹر ہیں تو فرخ نے کہا یہ رومانٹک فائٹر بھی ہے۔
غنویٰ نے بھٹو کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ یہی ان کی ناکامی کا پہلا قدم بن گیا۔ آج لوگ غنویٰ کو بھول گئے ہیں۔ بھٹو کی وراثت کی اصل حقدار بینظیر بھٹو بنیں جنہیں لوگوں نے بھی قبول کیا اور وہ مقبولیت کے تخت پر بیٹھ گئیں۔
بی بی شہید کے بعد ان کے شوہر آصف زرداری نے اپنی جگہ بنائی اور ان کی جگہ کوئی نہ حاصل کر سکا۔ زرداری صاحب عملی سیاست میں نہ تھے مگر انہیں لمحۂ موجود میں پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان کہا جا رہا ہے۔ وہ ایوان صدر میں پہنچے اور پانچ سال پورے کئے۔
آصف زرداری کی نظر آصفہ زرداری پر ہے۔ وہی پیپلز پارٹی کی طرف سے اصل کردار ادا کرے گی۔ اسے آصف زرداری کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔