بھارت میں مسلمانوں کیساتھ نارواسلوک پر تشویش ہے مودی کو انسانی حقوق کی پاسداری کرنا ہوگی:امریکہ
واشنگٹن (آئی این پی+ نیٹ نیوز) امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کے متعلق رپورٹ برائے2015 ء جاری کردی، امریکہ کے خصوصی سفیر برائے مذہبی آزادی ڈیوڈ سیپ سٹین نے بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے خلاف ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈیوڈ سیپ سٹین کا کہنا ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانی حقوق کی پاسداری کرناہوگی۔ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران امریکہ کے خصوصی سفیر برائے مذہبی آزادی کا کہنا تھا مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ڈیوڈ نے کہا گزشتہ سال امریکی صدر بارک اوباما نے دورہ بھارت کے دوران بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو پیغام دیا تھا کہ ان کو بھارت میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال بہتر کرنا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ گائے کا گوشت ہو یا کوئی اور بہانہ مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر تشدد ناقابل قبول ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا جن ممالک میں توہین یا تبدیلی مذہب پر سزائے موت کا قانون ہے، وہاں کے لوگوں پر آئے روز حملے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بھی 40 افراد توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت کے منتظر ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق اقلیت سے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا گزشتہ سال نومبر میں سوڈان کی حکومت نے ایسے 27 افراد کو حراست میں لیا جن کا تعلق ایک ایسے فرقے سے ہے جو صرف قرآن کو ہی مانتا ہے لیکن حدیث شریف یا فقہ کو نہیں مانتا۔ رپورٹ میں ایران کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ایرانی حکومت نے 20 افراد جن کا تعلق سنی مسلک سے ہے کو پھانسی دیدی۔ ایران میں اس وقت بھی کئی سْنی علماء جیلوں میں قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ عالمی دہشت گرد تنظیموں داعش اور بوکو حرام نے اپنی مذموم کارروائیوں میں ہزاروں افراد کی جان لی۔ اسی طرح روس اور چین میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں معمول ہیں۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں نے حکومتی امتیازی سلوک اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے سرکاری سکولوں میں ہندوازم سکھائے جانے کی تجاویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں ہندوقومیت پرست مذہبی عقائد کی بنا پر مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے کرتے ہیں۔ رپورٹ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کے متعلق بھی منفی خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی عہدیداروں اور سفیر نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ختم کرنے، توہین مذہب سے متعلق قانون کی شقوں کا غلط استعمال روکنے اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ امریکی عہدیداروں نے پاکستانی وزارت خارجہ سے سرکاری سکولوں اور مدرسہ کے تعلیمی نصاب کی اصلاح پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان میں قادیانیوں، عیسائیوں، ہندوئوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں سے برتے جانیوالے سلوک پر تحفظات کا اظہار کیا۔