پیپلزپارٹی نے حکومت کا ساتھ دینے کے لئے ڈاکٹر عاصم کی ضمانت، ایان کیس ختم کرنے کی شرائط لگائیں: نثار
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کیخلاف کوئی سنجیدہ نہیں، بس مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔ قوم سے منافقت نہ کی جائے اور بتایا جائے کہ سرے محل کے 6 ملین ڈالرز کس کے اکاؤنٹ میں گئے؟ ڈائمنڈ نیکلس کس کا تھا؟ میں نے عمران سے کہا تھا کہ وہ بلاول کو کنٹینر پر چڑھانے سے پہلے سرے محل کے بارے میں ضرور پوچھیں۔ کوئی الزام نہیں لگایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لیڈر آف اپوزیشن حکومت کیخلاف ہوتے ہیں، مگر وہ میرے خلاف ہیں۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ میٹر ریڈر اس مقام تک کیسے پہنچا؟ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے عمران کا ساتھ چھوڑ کر حکومت کا ساتھ دینے کیلئے ایان علی کا کیس واپس لینے اور ڈاکٹر عاصم حسین کو ضمانت پر رہا کرنے کی شرائط رکھی تھیں۔ کہا گیا تھا کہ اگر ایسا ہو جائے تو پیپلز پارٹی کی آپ سے صلح ہو جائے گی۔ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر عاصم کا کیس نیب کے پاس اور پراسیکیوٹر آپ کے دور کا لگا ہوا ہے۔ جبکہ ماڈل ایان علی 5 کروڑ بیرون ملک لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ غریبوں کی کھال اتارنے والے ایان کا کیس مفت لڑ رہے ہیں۔ بلاول، ایان علی کے ایئر ٹکٹ ایک ہی اکاؤنٹس سے خریدے جاتے ہیں۔ نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سارک کانفرنس میں مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور میزبانی کے تمام تقاضے پورے کئے لیکن بھارت نے ایٹی کیٹس کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نے بھارت سے مذاکرات کیلئے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ بھارتی وزیر داخلہ کو جواب دینا چاہتا ہوں کہ قتل عام بھی آپ کرتے ہیں، دھمکیاں بھی آپ دیتے ہیں اور مذاکرات کے دروازے بھی آپ بند کرتے ہیں۔ راج ناتھ نے راجیہ سبھا میں بیان دیا کہ پاکستان نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس سبق کی بات کر رہے ہیں؟۔ بھارت ہمیں کون سا سبق سکھانا چاہتا ہے؟۔ میں راج ناتھ سنگھ کو جواب دینا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم کسی کے تسلط میں نہیں رہ سکتی۔ پاکستان بھارتی تسلط اور کشمیریوں پر ظلم کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ پاکستانیوں کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بھارت میں پاکستانیوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا گیا۔ غلام علی، شہریار خان، نجم سیٹھی اور راحت فتح علی خان نے کیا قصور کیا تھا۔ خورشید محمود قصوری کی کتاب رونمائی کروانے والے میزبان کا منہ کالا کر دیا گیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں راج ناتھ سنگھ کی آمد پر صرف پرامن احتجاج ہوا، نثار نے بتایا کہ امریکی شہری میتھیو بیرٹ کو 2011ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر جاسوسی کا الزام نہیں تھا لیکن وہ حساس سکیورٹی والے علاقے میں پایا گیا۔ جلد ڈی پورٹ کر دیا جائے گی۔ انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان جس نے دیکھا بھی نہیں وہ بھی آج اس پر تبصرے کر رہا ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ مہمان کی عزت کروں لیکن پاکستان کی تضحیک پر جواب دینا بھی میرا فرض ہے۔ آپ کے گھر کوئی آئے اور آپ کی تضحیک کر کے چلا جائے اور آپ گُھگو بن کر بیٹھے رہیں یہ کہاں کا احترام ہے۔ اس بات پر کشمیریوں کو گمراہ کرنے والی پارٹی کے منہ سے تعریف کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا اس پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے جس کا لیڈر لکھی ہوئی تحریریں پڑھتا تھا۔ ولن یہاں ہیرو نہ بنیں۔ میں نے کہا اس کا جواب ملٹری کی طرف سے نہیں آنا چاہئے۔ جواب حکومت دے گی۔ میں نے ان کی تعریف بھی کی تھی۔ زرداری کو میری تعریف کی ضرورت نہیں تو انہوں نے میرا خط کیوں سنبھال کر رکھا ہے؟ زرداری کو میری تعریف کی ضرورت ہے لیکن ان کے ڈھنڈورچیوں کو کیا پتا، کیا یہ میرا قصور ہے کہ 2009-10ء میں دو ہزار واقعات ہوئے۔ ایک شخص نے وزیراعظم کے سامنے ڈرامہ رچانا تھا رچا لیا۔ تماشا لگانا تھا سو وہ لگایا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے چار نکات پر سب سے زیادہ تیزی سے کام ہوا۔ دہشتگردی ایک چوتھائی سے بھی نیچے آگئی ہے۔ سرحد کے باہر دشمنوں کی ایک لائن لگی ہے۔ جب سکیورٹی ادارے اپنی جانیں دے رہے ہوں تو آپ کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ غیر ملکی گٹھ جوڑ کی بات کریں تو ہمارے اپنوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ میرا کام ہے انٹیلی جنس شیئرنگ کرنا ہے۔ لیکن ایک پارٹی نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس نے مجھے ٹارگٹ کرنا ہے۔ میرا فرض ہے کہ میں سکیورٹی فورسز کو تنقید سے بچاؤں۔ کچھ ایسے لوگ چھپے ہوئے ہیں جنہیں بھارت کے مفادات سے زیادہ ہمدردی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ ایل پی جی کا ٹھیکہ کس طرح ریگولرائز کیا گیا۔ میں نے تو کبھی نہیں بات کی ٹھیکہ کیسے دیدیا گیا۔ آپ سے میں صرف جواب مانگ رہا ہوں کہ سرے محل آپ کا ہے یا نہیں؟ ڈائمنڈ کے نیکلس کا کیا بنا، کس کے پاس ہے؟ اگر اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے میرے خلاف کچھ کہنا ہے تو آئیں میڈیا کو استعمال کریں، جیوری بنائیں، چودھری نثار نے جیوری کیلئے اپنے مجوزہ صحافیوں کے نام بھی پیش کر دئیے اور دونوں رہنماؤں کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ پیپلزپارٹی سے بات چیت، مذاکرات، کسی بھی قسم کی بحث اور آپ سے تعاون کیلئے بھی تیار ہوں۔ انہوں نے کہا ہماری پارٹی میں کوئی گروپ نہیں۔ نثار نے کہا کہ کون صحیح ہے کون غلط، جسٹس وجیہہ الدین اور جسٹس طارق محمود اور ججز کا کمشن بنا لیں، یہ جھگڑا اب ختم ہو جانا چاہئے۔ انہوں نے صرف وزیراعظم کو متاثر کرنے کیلئے اسمبلی میں تماشا بنایا گیا۔ صباح نیوز کے مطابق نثار نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ رینجرز کا ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کرنا غلط تھا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ حملے کے حوالے سے کچھ شواہد ملے ہیں گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے، غدار ہے جیسے نعرے لگانے والے منافقانہ سیاست نہ کریں۔ عمران کہتے ہیں کہ میری ریلی کرپشن کے خلاف ہیں پہلے بلاول سے سرے محل کا تو پوچھ لیں۔