سائبر کرائم بل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا
لاہور (اپنے نامہ نگار سے) فیس بک، واٹس ایپ، یو ٹیوب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کو محدود بنانے والے سائبر کرائم بل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ یہ درخواست عوامی تحریک کے رہنما اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ کی جانب سے د ائر کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ سینٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی اس ایکٹ کی منظوری دے دی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سائبر کرائم بل آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی مخالفین اور ترقی پسند نوجوانوں کو ہراساں کیا جائے گا۔ آئین کے تحت کسی بھی شہری کی آزادی اور اظہار رائے پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی مگر اس کے ذریعے شہریوں کی زباں بندی کی جا رہی ہے جس سے گھٹن زدہ معاشرہ وجود پذیر ہو گا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے مختلف موضوعات پر ریسرچ کرنے والے طالبعلموں اور ریسرچرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں اس بل کی تین شقوں کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سائبر کرائم بل کی شق نمبر 10 ،18 اور 32 آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اور آزادی رائے کے حقوق کے خلاف ہیں۔ ریاست ایسا کوئی قانون نہیں بناسکتی جو بنیادی حقوق کےخلاف ہو۔ درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سائبر کرائم کا قانون سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس میں یہ اعتراض بھی اٹھایا گیا ہے کہ ایکٹ میں سائبر دہشتگردی کی شق شامل کی گئی ہے جس کے بعد سائبر کرائم ایکٹ انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے مساوی قانون بن گیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک وقت میں دو مساوی قوانین کا کوئی جواز اور گنجائش نہیں۔ درخواست میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ سائبر کرائم ایکٹ کی شق 18 کی وجہ سے ہتک عزت کا نیا قانون متعارف کرا دیا گیا ہے اس طرح ایک وقت میں دو قوانین ایک دو سے متصادم ہوجائیں گے۔ قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود اختیارات دے دئیے گئے جس کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارہ بغیر تحقیق کیے کسی بھی شہری کے موبائل اور کمپیوٹر کا ڈیٹا حاصل کر سکتا ہے۔ لہٰذا بنیادی حقوق سے متصادم شقوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔
سائبر کرائم ایکٹ