تشکیل وطن کی مقدس ساعت پر ابہام کیوں؟
وطن عزیز کی تشکیل کا 70واں جشن مناتے ہوئے اور انگریز کی غلامی اور ہندو کے استحصال سے آزادی حاصل کرنے کے 70ویں سال کے آغاز پر کچھ ایسے سوالات نے ذہن میں سر اٹھایا کہ میں ان کا کھوج لگانے بیٹھ گیا۔ 14 اگست کو یوم آزادی کے حوالے سے تمام قومی اخبارات نے اپنی خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا اور ٹی وی چینلوں پر بھی خصوصی پروگرام چلتے رہے۔ مجھے یہ مشاہدہ اور مطالعہ کرکے افسوس ہوا کہ ہم اپنے قومی دنوں کے حوالے سے بھی تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کا کوئی تردد نہیں کرتے اور ریکارڈ غلط کرنے کے مستقبل پر مرتب ہونے والے نتائج سے بھی لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔ ہماری جانب سے یقینا نادانستہ طور پر وطن عزیز کی سالگرہ کی تاریخ اور جشن آزادی کے سال کے حوالے سے تاریخ کا ریکارڈ غلط کیا جارہا ہے جو ہمارے بھیڑ چال والے کلچر کا خاصہ ہے۔ مگر ہم موجودہ حالات میں ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لئے قومی یکجہتی کے متقاضی ہیں تو ہمیں قیام پاکستان کے دن، تاریخ اور اس کی مدت کے بارے میں بھی یک جہت ہونا چاہئے تاکہ ہمارے ذہنوں میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔
مجھے افسوس ہوا کہ 14 اگست کی خصوصی اشاعتوں میں بعض اخبارات نے وطن عزیز کے گزشتہ روز کے یوم آزادی کو 69واں یوم آزادی قرار دیا اور اسی طرح بعض ٹی وی چینلوں پر بھی گزشتہ روز 69واں یوم آزادی منانے کے تذکرے چلتے رہے۔ اس میں یقینا کسی دانستہ سہو کا عمل دخل نہیں بلکہ یہ گنتی کی غلطی ہے جو بالعموم نظرانداز کردی جاتی ہے۔ جبکہ گنتی اگست 1947 کا مملکت خداداد کی تشکیل کا دن چھوڑ کر کی جاتی ہے۔ آپ اس دن کو بھی گنتی میں شمار کرلیں تو گزشتہ روز کا جشن آزادی بغیر کسی ابہام کے 70واں جشن آزادی ہی ثابت ہوگا۔ ہمیں کم از کم اپنے پاکستانی ہونے کے دن کے بارے میں تو کوئی ابہام پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اس بارے میں جن میڈیا گروپوں نے سہو کی، کیا وہ اس کا ازالہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میرے خیال میں تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں کی جانی چاہئے۔
اسی طرح قیام پاکستان کی تاریخ کے بارے میں دانستہ طور پر پیدا کئے گئے ابہام کا بھی اب ازالہ ہونا چاہئے جس کے لئے ڈاکٹر صفدر محمود اور منیر احمد منیر کے لاحاصل بحث مباحثہ کو مزید آگے بڑھانے اور اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ اس سے آپ دیوار پر گھونسے مارتے اپنے ہاتھ ہی زخمی کرتے رہیں گے اور نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ ارے بھلے لوگو! آج کسی بھی صدی کے کسی بھی سال کی کسی بھی مطلوبہ تاریخ اور دن کے بارے میں مکمل طور پر درست معلومات حاصل کرنے میں کون سی دقت رہ گئی ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اس میں موجود انٹرنیٹ کی سہولت نے دنیا کی کسی ساعت اور شب و روز کا کوئی راز مخفی نہیں رہنے دیا۔اب گزری ہوئی ہر ساعت اور ہر لمحہ بھی انسان کی دسترس میں ہے۔ اس لئے ماضی کے کسی لمحہ کا کھوج لگاتے ہوئے اس وقت کی کسی شخصیت کی گواہی لینے اور اس پر تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ آپ ’’گوگل‘‘ پر سرچ کریں، ماضی کے ایک ایک پل کا معاملہ آپ کے سامنے آجائے گا جو کسی شخصیت کی مصدقہ گواہی سے بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس تناظر میں آج فیصلہ کرنا چنداں مشکل نہیں پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل میں آیا تھا یا 15 اگست 1947ء کو۔ میں نے اس کی تصدیق کے لئے تاریخ کے دو حوالوں کو پیش نظر رکھا اور پھر گوگل پر سرچ کی تو حساب اور الجبرے کے سوال کے جواب کی طرح قیام پاکستان کی حقیقی تاریخ 15 اگست 1947ء پر کوئی ابہام نہ رہا۔
ہمارے لئے یہ فخر و انبساط کا مقام ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک مقدس اور متبرک ساعت میں ہمیں پاکستان کا تحفہ عط کیا تھا۔ وہ ساعت جمعتہ المبارک کا دن اور لیلتہ القدر والی 27ویں رمضان المبارک کی ہے۔ میں نے پہلے گوگل پر 1947ء کا عالمی کیلنڈر سرچ کیا تو اس میں 14 اگست کا دن جمعرات اور 15 اگست کا دن لامحالہ جمعتہ المبارک نکلا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان کا قیام جمعتہ المبارک کو 27 رمضان المبارک کی مقدس ساعت کے دن عمل میں آیا تھا تو وہ تاریخ 15 اگست ہی تھی۔ ہماری تاریخ یہی گواہی دیتی ہے کہ آل انڈیا ریڈیو پر مصطفی علی ہمدانی نے رات 12 بجکر ایک منٹ پر آل انڈیا ریڈیو کو ریڈیو پاکستان کے نام سے پکارا اور برصغیر کے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ آج پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگیا ہے۔ اگر یہ اعلان 13 اگست کو رات بارہ بجکر ایک منٹ پر کیا گیا تھا تو پھر یقینا پاکستان کا قیام 14 اگست کو عمل میں آیا تھا مگر وہ لمحہ لیلتہ القدر کا لمحہ ہرگز نہیں تھا۔ اس لئے ’’ریڈیو پاکستان‘‘ پر لامحالہ یہ اعلان 14 اگست کی رات بارہ بجکر ایک منٹ پر ہوا جو لیلتہ القدر کی گھڑی تھی کیونکہ 14 اگست 1947 ء کا سورج غروب ہوتے ہی 27ویں رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا تھا جو 15 اگست 1947ء کی شام سورج غروب ہونے تک برقرار رہا۔ اس کی تصدیق بھی میں نے گوگل پر اسلامی کیلنڈر کو سرچ کرتے ہوئے کی جس میں واضح طور پر 1366 ہجری کی لیلتہ القدر جمعرات 14 اگست کی شام کو شروع ہوتی ہے اور جمعتہ المبارک 15 اگست کی شام تک برقرار رہتی ہے۔ اگر تو اس ساعت میں 14 اگست کی شام بارہ بجے سے پہلے قیام پاکستان کا اعلان کیا گیا ہوتا تو یہ قیام 14 اگست ہی کو 27 رمضان المبارک کی مقدس ساعت میں ہونا قرار پاتا مگر 14 اگست 1947ء کی رات بارہ بجکر ایک منٹ پر تو 15 اگست کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس لئے قیام پاکستان کے وقت، دن اور تاریخ پر کوئی ابہام سرے سے موجود ہی نہیں۔ پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کیا عار ہے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بھارت کے یوم آزادی اور پاکستان کے قیام کی ایک ہی تاریخ ہو۔ ہمیں ہندو پر نفسیاتی برتری تو بھارت کی کوکھ میں سے نکلنے کی صورت میں ہی حاصل ہوگئی تھی کیونکہ اس سے ہندو کے اکھنڈ بھارت والی برتری کے خواب چکناچور ہوگئے تھے۔ اس لئے ہمیں اپنا یوم آزادی تاریخی حقائق کے برعکس بھارتی یوم آزادی سے ایک دن پہلے منانے سے ہندو پر ایک سراب والی ہی نفسیاتی برتری حاصل ہوسکتی ہے۔ ہمیں ہندو ذہنیت پر غلبہ وطن عزیز کی آزادی و خودمختاری کے تقاضے پورے کرکے حاصل کرنا ہے جس میں ہم آج مکمل ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ یہ تقاضے پورے نہ ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی میں دراڑیں پڑنے کے باعث ہی آج ہمارا موذی دشمن مودی آزاد کشمیر پر بھی ترنگا لہرانے کی بڑ ما رہا ہے۔ اگر ہم وطن عزیز کے قیام کے لمحات میں ہی کھوٹ پیدا کررہے ہیں اور ہندو پر ذہنی برتری کے تاثر میں زمینی اور تاریخی حقائق کوجھٹلا رہے ہیں تو قومی اتحاد و یکجہتی کے دامن پر گرفت مضبوط رکھنے کا تقاضہ بھی کیسے نبھا پائیں گے۔ اس لئے براہِ کرم تاریخ کا ریکارڈ درست رکھئے اور اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کیجئے۔ پاکستان کی تشکیل والا مقدس و متبرک لمحہ ہی ہمارے لئے قدرت کا تحفہ تھا جو بانی پاکستان قائداعظم کے نیک جذبے کی بدولت ہمیں حاصل ہوا۔ اس لمحے میں کسی کھوٹ کو داخل نہ ہونے دیجئے اور یاد رکھئے کہ سچائی پر کھڑے قدم کبھی ڈگمگایا نہیں کرتے۔