جدید تاریخ کے فاتح اعظم ، جنرل اختر
اس سے پہلے کہ کوئی تاریخ کو مسخ کر دے، جس کا عمل شروع ہو چکا ہے، مجھے اپنا فرض ادا کرنا ہے اور حقائق کو ان کے صحیح تناطر میںنئی نسل کے سامنے یپش کرناہے۔ میں شاید ا س موضوع پر قلم نہ اٹھاتا مگر تین روز پہلے وزیر اعلی پنجاب شہبازشریف کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میںانہوںنے افغان جہاد پر سخت تنقید کی ا ورا سے آج کی ساری بد امنی کا ذمے دار ٹھہرا دیا۔ مجھے شہباز شریف سے اس بیان کی توقع ہرگز نہیں تھی۔میاں شہباز شریف کے بھائی افغان جہاد کے دور میں پنجاب کے اہم تریںمحکمے خزانہ کے وزیر تھے اور پھر اس صوبے کے وزیر اعلی بھی بنے جس میں جنرل ضیا ہی کی ا شیر باد انہیں حاصل تھی۔نواز شریف کے ایک جلسے میں جنرل ضیا نے اپنی عمر انہیں لگانے کا عندیہ دیا اور جنرل ضیا کی شہادت کے بعد نواز شریف نے فیصل مسجد کے سامنے ایک ا جتماع میں کہا کہ وہ جنرل ضیا کے مشن کی تکمیل کریں گے۔آج اگر نواز شریف اور شہباز شریف بلکہ پوری مسلم لیگ ن کے خیالات میں تبدیلی آ گئی ہے تو عرض یہ ہے کہ ان کے خیالات کی تبدیلی سے تاریخ تبدیل نہیں ہو جاتی۔مئورخ جب کبھی اپنا قلم اٹھائے گا تو اسے 1978 سے 1988 تک کے واقعات کے دھارے کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ بلکہ مئورخ کو زار شاہی روس اور کمیونسٹ روس کے حکمرانوں کے مذموم عزائم کو مد نظر رکھنا ہو گا ۔ ان کی یہ خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے بلوچستان کے ساحل پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ گرم پانیوںکے ساحل کی ضرورت سوویت روس کے ایک اور کمیونسٹ ہمسائے چین کو بھی رہی ہے مگرا س نے اس خواہش کی تکمیل کے لئے جارحیت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔اس نے پہلے شاہراہ ریشم تعمیر کی ، یہ جان جوکھوں کا کام تھا، اب وہ پاک چین اقتصادی کوریڈور کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے ا اوراس دوران وہ گوادر کی بندر گاہ کی تعمیر کے لئے پاکستان کاہاتھ بٹا رہا ہے۔اس کے بر عکس سووئت روس بلوچستان کے ساحل تک پہنچنے کے لئے جارحیت کی تیاری کرتا رہا ور اور1978-79 میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے کابل میں سیاسی اور حکومتی تبدیلیوں کی آڑ میں اپنی فوج افغانستان میں داخل کر دی۔یہ ملک بنجر، بے آب و گیاہ ہے ، یہاں قابض ہونے میں کوئی چاشنی نہیں تھی۔ سووئت روس افغانستان کو بیس بنا کر پاکستان پر چڑھائی کرنا چاہتا تھا، اس لئے پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں ہو سکتا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے توڑے دار بندوقوں کی مدد سے سوویت فوج کے خلاف جہاد شروع کیا تو امریکہ ا ور آزاد دنیا بھی ا س کی پشت پر کھڑی ہو گئی تاکہ سووئت روس کو پائوں پھیلانے سے روکا جاسکے۔یہ حقیقت بھی سب کے علم میں ہے کہ شروع میں امریکہ نے جس مدد کی پیش کش کی ، اسے جنرل ضیا الحق نے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا۔
دنیا کی دوسری سپر پاور سووئت روس کے خلاف پاکستان کے جہاد کی کمان آئی ا یس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن کو سونپی گئی۔ میری ان سے ملاقات دسمبر 1971 میںقصور کے نواحی سرحدی گائوں باہمنی والہ میں ہوئی تھی جہاں وہ اپنے آرٹلری بریگیڈ کی کمان کے لئے مورچہ زن تھے۔یہ عجیب بات لگتی ہے کہ میرے ساتھ اکہتر کی جنگ کے بعداس ملاقات میں انہوں نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی بات کی تھی ا ور یہ پیشین گوئی کی تھی کہ اگر روس سے پاکستان کی مڈ بھیڑ ہوئی تو اسے نشان عبرت بنادیں گے۔اس قدردور بین نظر رکھنے والے انسان بہت کم ملتے ہیں ، بریگیڈیئر اختر کو اپنی پیش گوئی درست ثابت کرنے کے لئے صرف سات برس انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران وہ پاکستان ہی نہیں، دنیا کے ایک مسلمہ انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ بن چکے تھے۔
افغان جہاد کی منصوبہ بندی میں انتہائی را زداری سے کام لیا گیا۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل اختر کے علاوہ صرف ایک لیفٹننٹ جنرل اس کی اندرونی تفصیلات سے آگاہ تھے۔ میںنے یہ ساری ایمان افروز داستان بریگیڈئر یوسف سے کراچی جا کر سنی تھی، کسی وقت ا س کا احوال بھی لکھوں گا۔ بریگیڈیئر یوسف کو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ وہ جنرل اختر کے پلان پر عمل درا ٓمدکے ذمے دار تھے۔
افغان جہاد کی ندرت اور انفرادیت یہ ہے کہ اس میں کسی باقاعدہ ا ور پکی فوج نے حصہ نہیں لیا۔ جدید دور کا یہ پہلا میدان جنگ تھا جس میں کنٹریکٹر زکو اتارا گیا، ا سے ا ٓپ پراکسی وار بھی کہہ سکتے ہیں۔ آئی ا یس آئی نے ا س جنگ کے لئے مختلف افغان مجاہد گروپوں کو استعمال کیا۔ آگے چل کر اس جہاد میں عام پاکستانی مجاہدین بھی شامل ہو تے چلے گئے، دوسری طرف سوویت روس کی افواج قاہرہ تھیں جن کے پاس جدید تریں اسلحہ تھا، اور وہ کمانڈوز سے لڑنے کے لئے بھی پوری طرح تربیت یافتہ تھیں ۔ مگر یہ سوویت روس کی بد قسمتی ہے ا ور افغان مجاہدین کی خوش قسمتی ہے کہ پوری آزاد دنیا ان کی شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی، ابتدا میںان مجاہدین کے پاس روایتی اسلحہ تھا مگر بتدریج وہ بھی انتہائی مہلک اسلحے سے لیس ہو گئے۔ روسی ٹینکوں کے لئے مجاہدین کو اسٹنگر میزائل مل گئے جن کی مدد سے افغانستان روسی ٹینکوں کے مر گھٹ میں تبدیل ہو گیا۔ کسی بھی زمینی معرکے میں ٹینکوں کے بغیر انفنٹری کے لئے مقابلہ کرناایک ناممکن کام ہوتا ہے۔یہی کچھ پینسٹھ کی جنگ میں بھارت کے ساتھ چونڈہ میںہوا تھا، جہاں بھارت کے بکتر بند ڈویژن کے سامنے ہمارے دلیر گبھرو جوان خود بم بن کر ان کے سامنے لیٹ گئے تھے۔بھارتی ٹینکوں کا بھرکس نکال دیاگیا تو ان کی انفنٹری کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہو سکا، کہاں وہ گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان سے جی ٹی روڈ کو کاٹنے کے لئے نکلے تھے اور کہاں چونڈہ کے کھیتوںمیں ان کا ملبہ ہر سوبکھر گیا تھا۔اسی طرح روسی افواج بھی بحیرہ عرب کے ساحلوں تک پہنچنے کے خواب آنکھوں میں لئے افغانستان کے طول وعرض میں پس کر رہ گئی، آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا سرمہ بنا دیا گیا۔
اس معرکے کے سپاہ سالار جنرل اختر عبدالرحمن تھے، جنگوں کی تاریخ میں بڑے سورماہو گزرے ہیں مگر اختر عبدالرحمن کو یہ کریڈیٹ جاتا ہے کہ کسی پروفیشنل فوج کی مدد کے بغیر محض مجاہدین کے زور بازو سے انہوں نے دنیا کی ایک سپر پاور کاکچومر نکال کر رکھ دیا، میں اسی لئے انہیں جدید دور کا فاتح اعظم کہتا ہوں ۔امریکی جرنیل ویت نام میں ہارے، کمبوڈیا میں ہارے، عراق میں ہارے، شام اورافغانستان میں ان کی ہار سب کے سامنے ہے۔مگر اسی عرصے میں جنرل اختر عبدالرحمن نے سوویت فوج کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالی تووہ سرخرور ہوئے، تو پھر فاتح اعظم اور کسے کہیں گے۔
افغان جہاد میں کیڑے نکالنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے کلاشنکوف مافیا، ہیروئن مافیا اور فرقہ ورانہ مافیا کو جنم دیا۔ جو لوگ اس نوع کا الزام لگاتے ہیں ، اصل میں وہ تھپڑ مار کر اپنا ہی منہ لال کر رہے ہیں۔افغان جہاد لڑنے والے دونوں جرنیل17 اگست 1988 کو شہید کر دیئے گئے، جو حکمران بعد میں آئے، وہ کلاشنکوف مافیا، ہیرو ئن مافیا اور فرقہ ورانہ مافیا کے فروغ کو روکنے کے ذمے دار تھے۔وہ نہیں روک سکے بلکہ ان کے ادوارحکومت میں ان مافیاز کو مزید فروغ حاصل ہوا تو وہ جنرل ضیا اور جنرل اختر کو ان کے لئے کیسے دوش دے سکتے ہیں۔ 17 اگست 1988 کوان مافیاز کا کوئی وجود تک نہ تھا۔
آج پاکستان اگر سی پیک کی دہلیز پر کھڑا ہے تو اس کے لئے دعا دیجئے جنرل اختر عبدالرحمن کو جس نے بحیرہ عرب کو سوویت چنگل میںجانے سے بچایا۔
جنرل اختر پر ان کے بیٹوں ہمایوں، غازی اور ہارون کو ناز ہو گا۔ مجھے بھی ان پہ فخر ہے۔