• news

پھر اٹوٹ انگ کی رٹ‘ دہشت گردی پر بات کر لیں‘ بھارت : کشمیر پر مذاکرات چاہتے ہیں : پاکستان

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت نے مذاکرات پر مشروط آمادگی ظاہر کی ہے بھارت کا اصرار ہے کہ مذاکرات کا محور (بقول اسکے) ’سرحد پار دہشتگردی‘ ہونا چاہئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ بھارت نے جوابی خط میں مذاکرات شروع کرنے پر ’آمادگی‘ تو ظاہر کی ہے تاہم وہ مذاکرات اپنے ایجنڈا پر کرنا چاہتا ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ شدت پسندی سے نمٹنا ہے۔ اہلکار نے کہا کہ بھارت کے جوابی خط کا جائزہ مسئلہ کشمیر کے تناظر اور اس کے تاریخی پس منظر میں لیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی کی حکومت نے جواب میں کہا ہے کہ چونکہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کے کلیدی پہلوو¿ں کا تعلق سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی سے ہے اس لیے ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت میں انہیں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ حکومت پاکستان کو دئیے جانے والے خط میں بھارت نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پاکستان کے موقف کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے چند روز قبل بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر مسئلہ کشمیر پر خصوصی مذاکرات کیلئے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کی پیشکش کا جواب دینے کے لئے مروجہ سفارتی طریقہ کار کے برعکس اسلام آباد میں متعین اپنے ہائی کمشنر کے ذریعے خط کا جواب دفتر خارجہ پہنچایا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ بھارتی وزارت خارجہ اپنا جواب، نئی دہلی میں متعین پاکستان ہائی کمشنر کے سپرد کرتی کہ اسے اسلام آباد بھیجے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر گوتم بمباوالا نے دفتر خارجہ میں سپیشل فارن سیکرٹری محمد وحید الحسن سے ملاقات کی اور کشمیر پر مذاکرات کی پاکستانی دعوت کے حوالے سے اپنی حکومت کی طرف سے خط کا جواب پیش کیا۔ دفتر خارجہ میں بھارت کے جواب کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ دفتر خارجہ نے بھارتی جواب کی تفصیلات عام نہیں کیں لیکن پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے اعزاز چودھری کی دعوت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے اسلام آباد جانے کیلئے تیار ہیں لیکن یہ مذاکرات کشمیر پر نہیں بلکہ دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی پر ہوں گے جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال کو پاکستان کی طرف سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی صورتحال بھارت کا داخلی معاملہ ہے جسے پاکستان نہ اچھالے۔ رائٹر کے مطابق بھارت کا کہنا ہے کہ بھارتی خارجہ سیکرٹری سبرامنیم جے شنکر اپنے پاکستانی ہم منصب سے مسئلہ نہیں کشمیر کی صورتحال پر بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ بھارتی ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ بھارت نے جموں و کشمیر کی صورتحال کے بارے میں پاکستانی الزامات مسترد کر دئیے ہیں جوکہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ قراردادوں میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بھارت سے خاص طور پر اس معاملے پر مذاکرات چاہتے ہیں۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر متنازعہ مسئلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھارت سے تمام تنازعات کا حل بات چیت کے ذریعے چاہتے ہیں۔ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ ہر فورم پر اٹھایا ہے۔ ایک سفارتی ذریعہ کے مطابق بھارتی ہائی کمشنر کے ذریعے پاکستان کو بھیجے گئے جواب میں بھارت نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے اپنے خارجہ سیکرٹری کو پاکستان بھیجنے کیلئے تیار ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بات چیت کشمیر کی موجودہ صورتحال پر نہیں بلکہ سرحد پار دراندازی اور اس سے جنم لینے والی دہشت گردی پر کی جائے گی۔ بھارتی جواب میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا سرحد پر دراندازی سے گہرا تعلق ہے اس لئے کسی دوسرے موضوع سے پہلے اس مسئلے پر بات کرنا از حد ضروری ہے۔ دفتر خارجہ کے ایک ذریعہ کے مطابق بھارت کے مذکورہ جواب کو مذاکرات پر ”مشروط آمادگی“ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جوابی خط میں بھارت نے مسئلہ کشمیر پر سرے سے انکار کرتے ہوئے سرحد پار سے دراندازی، دہشت گردی اور شدت پسندی پر مذاکرات کی بات کی حالانکہ سردست ان موضوعات کے ذکر کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی دگرگوں صورتحال کے باعث سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے تو اپنے بھارتی ہم منصب کو کشمیر کی صورتحال پر خصوصی مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ بھارت اگر شدت پسندی اور دہشت گردی سمیت دیگر موضوعات پر مذاکرات کا متمنی ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا فورم موجود ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی دعوت مسترد کر دی ہے وہ اس مسئلہ کو کسی بھی صورت میں دوطرفہ، علاقائی یا عالمی سطح پر اجاگر ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ دوسری جانب بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ پچھلے 2 سال میں پاکستان سے معاملات کی بہتری کی کوشش کی گئی۔ بھارت کی ڈپلومیسی اب بہت عملی ہو گئی ہے، ہمیں پڑوسیوں تک رسائی حاصل کرنا ہو گی۔ انہیں تحفظ کا احساس دلانا ہو گا۔ ہمارا آگے بڑھنے پر اتفاق ہے لیکن مسئلہ دہشت گردی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق غیر ملکی نمائندوں کے کلب میں خطاب کے دوران ایس جے شنکر نے کہا کہ بعض ممالک دہشت گردی کو بطور ڈپلومیٹک پالیسی استعمال کرتے ہیں۔

بھارت/ مذاکرات

ای پیپر-دی نیشن