”بس ہمارے معاملات یونہی چلتے رہیں گے“
پاکستان کا مجموعی قرضہ 18 ہزار ارب سے زیادہ ہو چکا ہے۔ قرضوں پر سود ہمارے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں قرضے کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔
خیرات کیا وہ بھی جو موجود نہیں تھا
تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی
اب یہ سب کچھ کیا ہے؟ رونے کی گرچہ بات ہے اور آتی ہنسی بھی ہے۔ ایک ”گوڈے گوڈے“ نہیں قرض میں غوطے کھاتا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ملک اپنے قرضے کس دریا دلی سے معاف کئے جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے پچھلے دنوں سینٹ میں پچھلے پچیس برسوں کے دوران مختلف مالیاتی اداروں سے قرضے معاف کروانے والی کمپنیوں اور شخصیتوں کی فہرست پیش کر دی ہے۔ ان پچیس برسوں میں چار کھرب تیس ارب اور چھ کروڑ روپوں کے قرضے معاف کئے گئے۔ سبھی اہم سیاسی جماعتوں سے بڑے بڑے نام فہرست میں موجود ہیں۔ مجھے اس موقعہ پر اپنے پسندیدہ کالم نگار اردشیر کا¶س جی یاد آرہے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ بڑے فخر سے لکھا تھا کہ ہماری پارسی برادری سے نہ ہی کبھی کوئی ڈیفالٹر ہوا ہے اور نہ ہی ہمارے کسی آدمی نے کبھی کوئی بینک قرضہ معاف کروایا ہے۔ ادھر ہمارے ہاں اتنے بینک ڈیفالٹر موجود ہیں کہ کثرت استعمال سے ڈیفالٹر کا لفظ اپنی اردو زبان کا ہی لفظ محسوس ہوتا ہے۔ بینک قرضہ سے گلو خلاصی پانے والوں کی فہرست میں درج ایک نام خاصا حیران کن ہے۔ یہ نام عبداللہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ کا ہے۔ اس کمپنی کو 1 کھرب 54 ارب 84 کروڑ اور 73 لاکھ کا قرضہ معاف کیا گیا۔ میں نے جناب ارشاد عارف سے فون پر پوچھا کہ یہ اتنے خوش نصیب صاحب کون ہیں؟ میں نے احتراماً ان کیلئے جمع کا صیغہ استعمال کیا۔ شاہ جی نے جواب دیا کہ میں خود بڑی حیرت سے فہرست سے یہ نام پڑھ رہا ہوں۔ میں بالکل نہیں جانتا کہ یہ کمپنی کس شہر سے ہے اور اس کے حصہ داران کون ہیں؟ ایک فیملی ہے یا مختلف لوگ ہیں؟ پھر میں نے روزنامہ ”پاکستان“ کے ڈپٹی ایڈیٹر چودھری قدرت اللہ سے رابطہ کیا۔ لیکن اتنے باخبر اخبار نویس بھی اس خوش نصیب فرد یا فیملی سے بے خبر نکلے۔ اب میں یہ سوچ کر چپ ہوں کہ شاید منصور کے پردے میں خدا خود بول رہا ہے۔ بہرحال ہو گا کوئی اسی مقتدر طبقہ سے بندہ بشر جو پاکستان میں ہر چیز پر قادر ہے۔ اس قرضہ معافی کیلئے سرکاری خزانے کا منہ 2015ءمیں کھولا گیا۔ اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ 2015ءمسلم لیگ (ن) کا سنہری دور ہے۔ کیا ن لیگ کے ذمہ داران یہ وضاحت فرمائیں گے کہ پہلے اتنا قرضہ ایک فرم یا فیکٹری کو دیا ہی کیوں گیا؟
پھر معاف کرنے میں کونسی قومی مصلحت پوشیدہ تھی؟ ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ یہ فہرست اس وقت منظر عام پر آئی جب پانامہ لیکس پر بحث ابھی ختم نہیں ہوئی۔ عمران خان اس معاملے پر اکیلے احتجاجی جلسے اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ایک کالم نگار نے ان کی سولو فلائیٹ پر ون ویلنگ کی پھبتی کسی ہے۔ ان کے مطابق سیاسی میدان میں بھی سیاسی نوجوان اپنی ون ویلنگ کے باعث دوسروں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ احتجاج کسی بھی شہری کا جمہوری حق ہے۔ جمہوریت میں یہ رائے عامہ بیدار کرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ عمران خان پانامہ لیکس بارے حکمران خاندان سے پوچھ رہے ہیں یہ مال اموال کیسے کمایا گیا اور پاکستان سے باہر کیسے بھجوایا گیا؟ عمران خان آج ایک ایسا نام ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ سنائی دے رہا ہے۔ بھٹو سیاست کو غریبوں کی کٹیا تک لے گیا تھا۔ عمران خان کی محبت اور احترام میں اسیر اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوان سیاست کے کوچے میں چلے آئے ہیں۔ ورنہ وہ عرصہ دراز سے ادھر آنا جانا چھوڑ چکے تھے۔ پھر اپنے گھر بار والوں کےلئے دانے دنکے کی تلاش میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانی بھی عمران خان کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ حب الوطنی اور غریب الوطنی کے معنی ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ قانونی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی ٹیکس قوانین ایسے بیشتر افراد کے خلاف کارروائی کی اجازت ہی نہیں دیتے، جن کے نام پر پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ قانون کے مطابق ٹیکس حکام پانچ سال سے مزید پیچھے جا کر کارروائی کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے قانون میں نان فالکر کی دس سال سے زائد عرصہ کے دوران کی جانے والی سرمایہ کاری‘ دولت اور آمدنی کی تحقیقات کی اجازت نہیں۔ قانون ایک مکڑی کا جالا ہے، جس میں کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقتور اسے توڑ نکلتے ہیں لیکن اگر اس کی شقیں کسی طاقتور کے موافق ہوں تو یہی قانون اس کی حمایت میں فولاد کی طرح مضبوطی سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ گول ہونے اور قانونی ماہرین کی ان قرضوں بارے ایسی رائے آ جائے گی کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باعث اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ پھر ہماری عدالتیں حکم امتناعی جاری کرنے کے بارے میں جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں، والا کاروبار رکھتی ہیں۔ ایک محفل میں پاکستان کا مستقبل زیر بحث تھا۔ سبھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ وہیں موجود فیض احمد فیض سے ان کی رائے پوچھی گئی۔ کہنے لگے میرے خیال میں تو پاکستان کا حال کچھ اور بھی برا ہو گا۔ پوچھا گیا اور برا کیا ہو گا؟ لو کر لو گل اپنی انگلیوں میں پکڑے سگریٹ کا گل جھاڑتے ہوئے بولے: بس ہمارے معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔