متحدہ کی بطور پارٹی بقاء کی خاطر فاروق ستار کو الطاف حسین کی قیادت سے انکار کر دینا چاہیے
الطاف حسین کی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی‘ متحدہ کارکنوں کے میڈیا ہائوسز پر حملے اور متحدہ کے متعدد ارکان کا علیحدگی کا اعلان
ایم کیو ایم متحدہ کے لیڈر الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر اور انکے اشتعال دلانے پر متحدہ کے کارکنوں کے گزشتہ روز کراچی میں میڈیا ہائوسز پر حملوں کے بعد متحدہ کیلئے انتہائی مشکل صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے پاکستان کیخلاف الطاف حسین کے ادا کئے گئے ایک ایک لفظ کا حساب لینے کا اعلان کردیا ہے‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی میں آگ لگانے والوں کو ہر قیمت پر پکڑنے کے احکام جاری کر دیئے ہیں۔ ڈی جی رینجرز بلال اکبر نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کیخلاف بات کرنیوالوں کو ایسا جواب دینگے کہ وہ تمام زندگی یاد رکھیں گے۔ اس تناظر میں نائن زیرو سمیت متحدہ کے تمام دفاتر سربمہر کردیئے گئے ہیں جبکہ قومی اور سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کی تقریر اور متحدہ کارکنوں کے میڈیا ہائوسز پر حملوں کیخلاف مذمتی قراردادیں پیش کردی گئی ہیں اور ملک بھر میں حکومتی اور اپوزیشن سیاسی قائدین اور کارکنوں کی جانب سے الطاف حسین کی مذمت اور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ الطاف حسین کی پاکستان مخالف زہریلی تقریر پر خود متحدہ کی صفوں میں بے چینی اور بے زاری کا اظہار کیا جارہا ہے اور متحدہ کے عہدیداران بیرسٹر فروغ نسیم اور بیرسٹر محمدعلی سیف سمیت متحدہ کے متعدد عہدیداروں اور کارکنوں بشمول ایک رکن اسمبلی نے متحدہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ گزشتہ روز الطاف حسین کی ٹیلی فونک تقریر کے بعد رینجرز نے کراچی پریس کلب میں متحدہ کے عہدیداروں اور ارکان پارلیمنٹ و سندھ اسمبلی کو پریس کانفرنس کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور وہاں سے ڈاکٹر فاروق ستار‘ خواجہ اظہار الحسن اور ڈاکٹر عامرلیاقت حسین سمیت متحدہ کے متعدد عہدیداروں کو حراست میں لے لیا جنہیں بعدازاں منگل کے روز رہا کر دیا گیا۔ متحدہ کی کوکھ میں سے جنم لینے والی پاک سرزمین پارٹی کے قائدین مصطفی کمال‘ انیس خان قائم خانی‘ رضا ہارون اور دوسرے عہدیدار پہلے ہی الطاف حسین کی ملک دشمن سرگرمیوں اور افواج پاکستان کیخلاف انکی تقریروں پر متحدہ پر ملبہ ڈالنے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور گزشتہ روز بھی الطاف حسین کی تقریر سے پیدا ہونیوالی اشتعال انگیز صورتحال سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور متحدہ پر پابندی اور الطاف حسین کیخلاف کارروائی کے تقاضے میں پیش پیش رہے۔
متحدہ کی سیاسی اور تنظیمی بقاء کیلئے اٹھنے والے سوالات کی یہ فضا بدقسمتی سے متحدہ کے لیڈر الطاف حسین نے خود ہموار کی ہے جنہوں نے کراچی ٹارگٹڈ اپریشن کے دوران رینجرز کے بعض اقدامات پر تحفظات کااظہار کیا اور اپنے ٹیلی فونک خطابات کے ذریعے افواج پاکستان کی قیادتوں کے ساتھ ساتھ بانیان پاکستان کو بھی رگیدنا شروع کردیا۔ گزشتہ سال متحدہ کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے اور وہاں سے بھارتی ساختہ اسلحہ کی برآمدگی کے ساتھ ساتھ بعض ایسے جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری بھی عمل میں آئی جنہوں نے دوران تفتیش بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سے تربیت اور فنڈنگ حاصل کرنے کا اعتراف بھی کیا تو الطاف حسین کی زبان عسکری قیادتوں کیخلاف زہرافشانی کرنے لگی‘ جس سے متحدہ کیلئے ابتلاء کے دور کا آغاز ہوا۔ حکومت کی جانب سے الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطابات کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کوریج پر پابندی عائد کردی گئی اور پیمرا کی جانب سے الطاف حسین کا نام لینے سے بھی الیکٹرانک میڈیا کو روک دیا گیا۔ ان اقدامات کیخلاف الطاف حسین نے کراچی میں پہیہ جام اور شٹرڈائون ہڑتال کی کال دی مگر پہلی بار انہیں اپنی اس کال پر ہزیمت اٹھانا پڑی اور متحدہ کے کارکنوں کے اکادکا احتجاجی مظاہروں کے سوا اور کوئی مؤثر احتجاج متحدہ کی صفوں میں سے سامنے نہ آسکا۔ اسی فضا میں متحدہ کے کنارہ کش ہونیوالے لیڈران انیس خان قائم خانی اور مصطفیٰ کمال اپنی خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئے اور الطاف حسین کیخلاف جارحانہ سیاست والی حکمت عملی کا آغاز کرتے ہوئے ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات کے ثبوت فراہم کرنا شروع کردیئے اور پھر پاک سرزمین پارٹی کا اعلان کرکے الطاف حسین مخالف عملی سیاست کا آغاز کر دیا جس کے دوران متحدہ کے متعدد ارکان سندھ اسمبلی اور دوسرے عہدیدار متحدہ سے نکل کر پاک سرزمین پارٹی میں آگئے۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی جانب سے متحدہ کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ اب الطاف حسین کی پاکستان کیخلاف زہریلی تقریر کے بعد متحدہ کی بقاء کیلئے نئی آزمائش شروع ہو گئی ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے متحدہ پر پابندی لگانے کے تقاضے بڑھ گئے ہیں۔
بے شک اس وقت متحدہ کو دیوار سے لگانے کی کوششیں عروج پر ہیں جس کیلئے الطاف حسین نے خود ہی راستہ ہموار کیا ہے تاہم اس حقیقت سے آج بھی انکار ممکن نہیں کہ اس پارٹی کی ضیاء الحق کے دور میں تشکیل کے پس منظر کے باوجود اسکی جڑیں کراچی کے عوام میں خاصی مستحکم ہیں اور متحدہ لیڈر شپ کی کردار کشی کے باوجود اس کیلئے عوامی مقبولیت میں کمی نہیں آئی جس کا ثبوت قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات اور پھر رواں سال کے بلدیاتی انتخابات سے متحدہ کا واضح اکثریت کے ساتھ جیتنا ہے۔ اس تناظر میں عوامی مقبولیت رکھنے والی اس پارٹی کو سیاسی طور پر منظر سے ہٹانا کسی دانشمندی کے زمرے میں نہیں آئیگا جبکہ اس کا ردعمل بالخصوص کراچی میں مزید اشتعال کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ اگر عوامی مقبولیت کی حامل اس جماعت کی آزمائش اسکے لیڈر الطاف حسین کی پاکستان‘ بانیان پاکستان اور افواج پاکستان کیخلاف بدزبانی سے شروع ہوئی ہے اور گزشتہ روز انہوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا کر اپنے حامی متحدہ کے عہدیداروں کو مزید آزمائش میں ڈالا ہے تو اسکی سزا پوری پارٹی کو کیوں دی جائے۔
اصولی طور پر تو الطاف حسین کو اپنی پاکستان اور فوج مخالف سوچ کی بنیاد پر خود ہی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دینا چاہیے تھا تاکہ انکی سوچ کے نتیجہ میں انکی پارٹی کسی کارروائی کی زد میں نہ آئے تاہم الطاف حسین نے متحدہ کے قائد کی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے پاکستان اور افواج پاکستان کیخلاف اپنا زہریلا پراپیگنڈا برقرار رکھا اور گزشتہ روز انہوں نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگوانے سے بھی گریز نہیں کیا جس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر بھارت مردہ باد کے لگنے والے نعروں کے توڑ کیلئے بھارت کے ایماء پر یہاں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا رہے ہیں۔ اس تناظر میں ہی ان کیخلاف حکومتی‘ سیاسی‘ عسکری‘ عوامی اور ہر سطح سے سخت ردعمل کا اظہار سامنے آرہا ہے اور خود متحدہ کے لوگ بھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ اسکے باوجود متحدہ کی صفوں میں جو لوگ آج بھی الطاف حسین کا دم بھر رہے ہیں اور انکی پاکستان مخالف زہریلی سوچ کی وکالت کررہے ہیں‘ وہ یقیناً الطاف حسین ہی کی طرح اپنی پارٹی کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ گزشتہ روز الطاف حسین کے اشتعال دلانے پر متحدہ کے کارکنوں نے کراچی پریس کلب کے باہر قائم متحدہ کے ہڑتالی کیمپ سے نکل کر جس طرح میڈیا ہائوسز پر حملے اور توڑ پھوڑ کی اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا وہ انتہائی قابل مذمت اقدام ہے جس کی کسی بھی مہذب معاشرہ میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس مجرمانہ کارروائی پر میڈیا ہائوسز اور انکے کارکنوں کا ردعمل بھی فطری تھا جبکہ متحدہ کی صفوں میں سے اسکے ازالہ کیلئے کوئی کوشش کی جاتی بھی نظر نہ آئی۔ اسکے برعکس ڈاکٹر عامرلیاقت حسین نے ہڑتالی کیمپ میں تقریر کے دوران الطاف حسین کی وکالت کی جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی اپنی حراست تک الطاف حسین کا ہی دم بھرتے نظر آئے۔ اس بنیاد پر رینجرز کی جانب سے انہیں پریس کانفرنس سے روکنا اور حراست میں لینا بادی النظر میں درست اقدام ہو سکتا ہے تاہم دوران حراست انکے ساتھ رینجرز کی جانب سے جس انداز میں چھیناجھپٹی اور دھکم پیل کی گئی جو ٹی وی سکرینوں پر پوری دنیا میں دیکھی گئی‘ وہ کسی صورت قابل ستائش قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ ڈاکٹر فاروق ستار پارلیمنٹیرین ہونے کے ناطے بہرصورت قوم کے منتخب نمائندے ہیں جن کے ساتھ بدسلوکی پارلیمنٹ اور قوم کے ساتھ بدسلوکی کے مترادف ہے۔ تاہم فاروق ستار کو خود بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ انکے ساتھ اس بدسلوکی کی نوبت الطاف حسین کی زہریلی تقریر کے نتیجہ میں ہوئی ہے جن کا وہ اپنی حراست تک دم بھرتے رہے۔ اب اپنی رہائی کے بعد انہوں نے منگل کی شام کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میڈیا ہائوسز پر حملوں سے متعلق گزشتہ روز کے افسوسناک واقعات اور پاکستان مردہ باد کے نعروں پر افسوس‘ شرمندگی اور اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ ایم کیو ایم متحدہ کی پالیسی ہرگز نہیں۔ چونکہ ایم کیو ایم انکے نام پر رجسٹرڈ ہے اس لئے اس پارٹی کو الطاف حسین کی زہریلی سوچ کی بنیاد پر کسی قانونی کارروائی سے بچانے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے جس کیلئے گزشتہ روز کے واقعہ پر محض افسوس اور لاتعلقی کا اعلان کافی نہیں۔ وہ جب تک الطاف حسین کو متحدہ کے ساتھ وابستہ رکھیں گے تب تک وہ انکی سوچ کے حامی ہی سمجھے جائینگے اس لئے اب انہی کی اصل آزمائش ہے کہ انہوں نے متحدہ کو بطور پارٹی کیسے بچا کر رکھنا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ الطاف حسین خود کو متحدہ سے الگ نہیں کرتے تو فاروق ستار انہیں پارٹی سے نکالنے اور انکی پاکستان مخالف سوچ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کریں اور پھر اس کا عملی ثبوت بھی فراہم کریں۔ اس کیلئے متحدہ کو محض ایم کیو ایم پاکستان کا نام دینا کافی نہیں بلکہ اس میں الطاف حسین کا عمل دخل مکمل ختم کرنا ہوگا۔انہیں ایک آدمی کی قیمت پر پوری پارٹی کو بہرصورت قربان نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے لاتعلق ہونے کا اعلان کررہے تھے تاہم انکی زہریلی سوچ کا یہ عذر بھی نکال رہے تھے کہ ممکن ہے انہوں نے اپنی خرابی صحت اور ذہن پر کسی دبائو کے باعث ان خیالات کا اظہار کیا ہو۔ اس طرح وہ متحدہ میں الطاف حسین کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کے بارے میں بدستور گومگو کا شکار ہیں۔ جب تک وہ متحدہ کیلئے الطاف حسین کی قیادت سے دوٹوک انکار نہیں کرتے‘ وہ متحدہ کو ابتلاء اور آزمائش سے نہیں نکال پائیں گے۔