• news
  • image

 ’’ الطاف حسین کا خود کُش حملہ!‘‘

22 اگست کو برطانوی شہری اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے پاکستان میں سیاست کرنے والے کروڑوں لوگوں کا لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے قائد الطاف حسین نے ٹیلی فون پر اشتعال انگیز تقریر کر کے کراچی میں ’’دستیاب‘‘ اپنے دو اڑھائی سو پیروکاروں سے ’’ پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگوائے اور پاکستانی قوم اورمیں شامل ’’ مہاجر قومیت‘‘ کے لئے بھی نا پسندیدہ ہوگئے۔الطاف صاحب پاکستان میں کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور برطانوی شہری ہونے کے باوجود وہاں بھی "Most Wanted" ۔

تیسری نسل کے مہاجروں کی نقاب پوش اولاد (لڑکوں اور لڑکیوں ) نے تین نیوز چینلوں پر اِس طرح کے حملے کئے ، آتشزنی اور توڑ پھوڑ کی ، اس طرح کی وارداتیں تو قیامِ پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے یا مطالبہ کرنے والوں کے گھروں اور کاروباری اداروں پر سِکھ اور ہندو مہا سبھائی غنڈے کِیا کرتے تھے ۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور مختلف اُلخیال سیاسی / مذہبی جماعتوں کے قائدین نے یہ نعرہ لگانے والوں کی مذمت میں یکجہتی کا مظاہرہ کِیا۔ الطاف حسین نے نہ صِرف اپنا بلکہ قومی اسمبلی کے 25 اور سندھ اسمبلی کے 52 ارکان سمیت ساری قیادت کا مستقبل تاریک کردِیا ہے اور ’’مہاجر ‘‘ کہلانے والی اُن کی اولاد کا بھی ۔
1990ء میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ، جب اُن کی دعوت پر الطاف حسین لاہور تشریف لائے ۔ اُنہوں نے باغ جناح میں جلسے سے خطاب کِیا تھا۔ تحریک پاکستان کے کارکن کرامت علی خان (مرحوم ) سیکرٹری اطلاعات پنجاب تھے ۔ اُنہوں نے مجھے اور تین دوسرے صحافیوں کو مقامی ہوٹل میں الطاف صاحب سے ملوایا مَیں نے کہا کہ ’’ الطاف بھائی! مَیں نے اپنے خاندان کے ساتھ مشرقی پنجاب کی سِکھ ریاست ’’نابھہ ‘‘ سے ہجرت کی تھی لیکن مَیں اور میرے خاندان کے لوگ ’’ مہاجر ‘‘ نہیں کہلاتے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’ آپ کو تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ آپ پہلے بھی پنجابی زبان بولتے تھے اور اب بھی ۔ آپ کا کلچر بھی وہی ہے!۔ مَیں نے کہا کہ ’’مجھے کیوں فرق نہیں پڑا؟۔ تحریک پاکستان میں میرے خاندان کے 26 لوگ شہید ہُوئے اور یہ بات یاد رکھیں کہ ’’پاکستان میں مہاجر کہلانے والا کوئی بھی خاندان ’’مہاجرینِ مکّہ‘‘ کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا ‘‘۔
یہ پاکستان کے فوجی آمروں اور ’’جمہوریت پسندوں ‘‘ کی ضرورت تھی کہ اُنہوں نے الطاف حسین سے اتحاد کِیا ۔ حکومت میں شامل کِیا اور مزے لُوٹنے دئیے ۔ پھر ہر کوئی پچھتا یا ۔ اگر الطاف حسین ’’پاکستان کے حقیقی سپوت‘‘ ہوتے تو ملکۂ برطانیہ کی وفا داری کا حلف اٹھا کر برطانیہ میں رہنے کے بجائے پاکستان میں رہ کر سیاست کرتے ۔ پھر وہ پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہلاتے تو کوئی اعتراض بھی نہ کرتا۔ 5 جنوری 2013ء کو لندن سے ٹیلی فون پر رابطہ کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہُوئے الطاف صاحب نے کہا تھا کہ ’’ مَیں آئندہ 72 گھنٹوں میں سیاسی ڈرون حملہ کرنے والا ہُوں ‘‘۔72 گھنٹے بعد جب اُنہوں نے اپنے خطاب میں بانیٔ پاکستان حضرت قائدِاعظم کی ذات پر ’’ ڈرون حملہ ‘‘ کردِیا اور اپنی برطانوی شہریت کو جائز قرار دیتے ہُوئے کہا کہ ’’ پاکستان بنانے کے بعد بھی قائداعظم تاجِ برطانیہ کے وفا دار رہے تھے ‘‘ ۔
مَیں نے 12 جنوری 2013ء کے ’’ سیاست نامہ‘‘ میں الطاف صاحب کی قانون اور تاریخ کے معاملے میں جہالت کا بھانڈا پھوڑتے ہُوئے لِکھا تھا کہ ’’ حصولِ پاکستان کے بعد قائداعظم کا انگریزوں کے بنائے ہُوئے قوانین و ضوابط کے تحت گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھانا ضروری تھا‘‘۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ خود کو بانِیان پاکستان کی اولاد کہلانے والے الطاف حسین پر تو پاکستان میں مختلف جرائم کے تحت مقدمات چل رہے ہیں ۔ کیا خدانخواستہ قائداعظم پر بھی اِس طرح کے مقدمات تھے اور اُنہوں نے بھی پاکستان سے فرار ہو کر برطانوی شہریت اختیار کرلی تھی؟‘‘۔
15 اپریل 1912ء کو "North Atlantic Ocean" میں ڈوبنے والے بحری جہاز "Titanic" کے حوالے سے 26 جون 2013ء کو الطاف حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ پاکستان بھی "Titanic" کی طرح ڈوبنے والا جہاز ہے ۔اِس پر مَیں نے اُن کی ’’پاکستان سے محبت‘‘ کی دُھلائی کی تھی۔ اپنے ایک اور خطاب میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مجھے عمران فاروق قتل کیس میں پھنسانے کی سازش کی جا رہی ہے ۔ امریکہ یا برطانیہ میں کسی بھی شخص کی جان لینا مشکل نہیں ۔ اگر مجھے برطانیہ میں مار دِیا گیا تو میرے خون سے ہی پاکستان میں ہی انقلاب آئے گا‘‘۔
فی الحال برطانیہ میں اُن کی جان محفوظ ہے تو ایسی صورت میں پاکستان میں ’’ سچا انقلاب‘‘ کیسے آسکتا ہے؟ ۔ اُن کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بھی دِھیمے سُروں میں چل رہا ہے ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مَیں عوامی جمہوریہ چین کے مائوزے تنگ ، ویت نام کے ہوچی مِنہ اور شمالی کوریا کے کامریڈ کِم اُل سُنگ کے بعد ساری دُنیا میں مَیں ہی اکیلا لیڈر ہوں جو غریبوں کے حق میں انقلاب کی بات کرتا ہے ۔ کیا ’’ پاکستان مردہ باد ‘‘ کے نعرے لگوانے سے اِنقلاب آ جائے گا ؟۔ ملکۂ برطانیہ کے ایک اور وفا دار ’’ کینیڈین قائدِ انقلاب‘‘ علامہ طاہر اُلقادری الطاف صاحب کے مُنہ بولے بھائی بنے تھے اب اُنہوں نے یہ رشتہ توڑ لِیا ہے ۔ بُرے وقت میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے ۔
اپریل 2015ء میں کراچی کے ایک ضمنی انتخاب میں جناب عمران خان نے ’’کراچی کے مہاجروں ‘‘ کے دِلوں میں گھر کرنے کے لئے کہا تھا کہ ’’ میری والدہ صا حبہ بھی 1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھیں ۔ مَیں بھی آدھا ’’ مہاجر ‘‘ ہُوں تو الطاف صاحب نے کہا تھا کہ ’’ مَیں تو عمران خان کو پورا مہاجر سمجھتا ہوں ‘‘۔ مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’ اب تو عمران خان ’’ نجیب اُلطرفین مہاجر‘‘ ہوگئے ہیں‘‘ ۔ امیر جماعت اسلامی جناب سراج اُلحق نے بھی مرحوم پروفیسر عبدالغفور کی ’’ مہاجرت‘‘ کا تذکرہ کِیا تھا لیکن امیدوار ایم کیو ایم کا ہی منتخب ہُوا تھا۔
جرمنی کے ڈکٹیٹر "Adulf Hitler" (1889ء ۔ 1945ئ) نے روس کے برلن پر قبضہ کرنے کے بعد "Frustration" ( ناکامی، نا مرادی ، مایوسی، نا آسودگی) کا شکار ہو کر خود کشی کرلی تھی۔ اسلام کی رُو سے خود کُشی حرام ہے اور خود کُش حملہ آوروں کے بارے میں بھی نیک سیرت عُلماء کا فتوی ہے کہ ۔ ’’ خود کُش حملہ آور حرام موت مرتے ہیں ‘‘۔ لیکن خود کُش حملہ آوروں کی پرورش کرنے والے اور اُن کے سہولت کار اُنہیں یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ’’ تم اور تمہارے خود کُش حملہ میں مارے جانے والے سبھی لوگ سیدھے جنت میں جائو گے!‘‘۔ 22 اگست کو الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد اڑھائی تین سو نو خیز مہاجروں کا نیوز چینلوں پر حملہ دراصل ’’الطاف حسین کا خود کُش حملہ ‘‘ ہے ۔ اب ایم کیو ایم کے کِس کِس سینئر اور جونئیر قائد / کار کن کی جان جائے گی ؟ اور اُن کے پسماندگان کا کیا بنے گا؟۔ الطاف صاحب بھی نہیں جانتے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن