• news
  • image

ذوالفقار علی بھٹو اور الطاف حسین؟

22 اگست کو الطاف حسین لندن سے اشتعال انگیز تقریر کر کے کراچی میں اپنے دو اڑھائی سو عقیدت مند لڑکوں اور لڑکیوں سے ’’ پاکستان مُردہ باد‘‘ کے نعرے لگوانے اور پھر معافی مانگنے پر بات ختم نہیں ہُوئی اور نہ ہی ڈاکٹر فاروق ستار کا ایم۔ کیو۔ ایم ، کی قیادت سنبھالنے اور ذہنی طور پر دبائو کا شکار الطاف حسین کو ’’ عاق‘‘ کرنے کے اعلان سے کہ ’’ اب ہم ایم کیو ایم کو پاکستان میں بیٹھ کر (یا کھڑے ہو کر ) چلائیں گے‘‘ ۔ کیونکہ لندن میں ایم کیو ایم کے سیکرٹریٹ میں "On Duty" رابطہ کمیٹی کے رُکن واسع جلیل نے فوراً ہی الیکٹرانک میڈیا پر بتایا کہ ’’ ایم کیو ایم کے بانی اور قائد الطاف حسین ہیں اور وہی رہیں گے اور اِس بات پر کوئی "Confusion" ( الجھائو) نہیں ہونا چاہیے کہ فاروق ستار صاحب بھی لندن کی رابطہ کمیٹی سے مشاورت کِیا کریں گے‘‘۔

لندن اور کراچی ( پاکستان ) میں ایم کیو ایم کی ایک ایک ’’ رابطہ کمیٹی‘‘ ہے ۔ لندن اور کراچی کی رابطہ کمیٹیوں کے ارکان کی نامزدگی الطاف حسین ہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی میڈیا پر اِس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ الطاف بھائی نے لندن یا کراچی کی رابطہ کمیٹی تحلیل کردی‘‘۔ کِس ضابطے کے تحت؟ دراصل الطاف صاحب کو "Divine Right of Kings" کے تحت ( بادشاہوں کو خداوندی اختیار حاصل ہیں )۔ اُن کا ہر فیصلہ ہی ضابطہ ہے اور الطاف حُسین کو ’’ ضابطۂ خان‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔ ایک پرانے شاعر نے ’’ ضابطہ خانم‘‘ قِسم کی اپنی محبوبہ کی مَن مانی طبیعت کو چیلنج کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
’’ کسی ضابطے میں تو زلفوں کو لائو!
نہ اُلجھا رہے ہو نہ سُلجھا رہے ہو!‘‘
جناب الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے ’’ پاکستان مُردہ باد ‘‘ کے نعرے لگوا کر ، معافی تو مانگ لی لیکن اب الجھائو یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگلے ہی روز اُنہوں نے ویڈیو لِنک پر امریکہ میں مقیم اپنے کارکنوں سے اُسی رنگ اور اُسی ڈھنگ میں خطاب کِیا۔ جناب فاروق ستار سے اُن کی پریس کانفرنس میں پوچھا گیا تھا کہ ’’ کہیں ایم کیو ایم ، والے "Minus One" فارمولے پر عمل تو نہیں کر رہے تو اُنہوں نے اپنے سمیت ایم کیو ایم کے 5 سینئر ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ یہاں تو "Plus Five" والی بات چل رہی ہے ‘‘ ۔ اِس کے باوجود سیاسی اور غیر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ’’ اب ایم کیو ایم کے دو گروپ بن جائیں گے ‘‘۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’’ مسلم لیگ‘‘ کے نام سے نیا گروپ بنایا گیا تو اُس کا نام ’’ ہم خیال گروپ‘‘ پڑ گیا تھا ۔ شاعر نے کہا تھا
’’ مَیں خیال ہُوں کسی اور کا ، مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘
پھر ہم خیال گروپ کا نام مسلم لیگ ( قائدِاعظم ) پڑ گیا جو اب چودھری شجاعت حسین کی ملکیت ہے۔ کیا جناب فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کو ’’ ہم خیال گروپ‘‘ کہا جائے گا یا ’’ قائداعظم گروپ؟‘‘۔11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں حِصہ لینے کے لئے الیکشن کمِشن آف پاکستان کے پاس جناب فاروق ستار کے نام سے ایم ۔ کیو ۔ ایم کی رجسٹریشن ہُوئی تھی۔ انہیں Power of Attorney" الطاف حسین صاحب نے ہی دی ہوگی ۔ کیا واسع جلیل صاحب اُسے الطاف صاحب سے تحلیل کراسکیں گے ؟ ۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں بڑے ملزم کی حیثیت سے جیل جانے سے پہلے اپنی اہلیۂ بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا ۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے مولانا کوثر نیازی کی چیئرمین شِپ میں "Progressive People`s Party" بنوائی تھی لیکن جیالوں نے مولانا کو "Progressive" ( ترقی پسند ) تسلیم نہیں کِیا اور اِن کی پارٹی کو کوئی کباڑی بھی خریدنے کو تیار نہیں تھا۔صدر جنرل ضیاء اُلحق صاحب پر پاکستان دولخت کرانے کے الزام پر مقدمہ نہیں چلوایا کیونکہ
’’ اِس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے تھے ‘‘
لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں مجرم ٹھہرا کر بھٹو صاحب کو پھانسی کا حکم دے دِیا۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق نے صِرف اتنا کِیا، کہ بھٹو صاحب کی طرف سے کی جانے والی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی، پھانسی سے پہلے یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ’’ لیبیا کے صدر کرنل قذافی یا فلسطینی راہنما یاسر عرفات اپنے کمانڈو بھیجیں گے جو بھٹو صاحب کو جیل سے چھڑا کر لے جائیں گے ‘‘ لیکن ایسا نہیں ہُوا، بھٹو صاحب نے ملکہ الزبتھ دوم سے وفا داری کا حلف اٹھا کر ، جناب الطاف حسین اور علامہ طاہر اُلقادری کی طرح برطانیہ یا کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی ہوتی تو صدر جنرل ضیاء اُلحق کے لئے مشکلات تو پیدا ہوسکتی تھیں۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں ہر کسی کو بُرا بھلا کہا جاسکتا ہے لیکن ملکۂ معظمہ کو نہیں ۔ پاکستان میں ’’ پاکستان مُردہ باد ‘‘ کا نعرہ لگوانے پر الطاف حسین ’’ بانِیان پاکستان کی اولاد ‘‘ کہلانے والے اور اُن کے پیرو کاروں کو کیا سزا دی جائے گی ؟۔ یہ تو بعد میں پتہ چلے گا لیکن یہ بات تو آپ کے علم میں ہے کہ جو عُلمائے سُو مصّورِ پاکستان علامہ اقبال اور بانیِ پاکستان قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر رُسوا ہُوئے ، انہیں اور اُن کی باقیات کو کیا سزا دی گئی ہے؟
’’ مَیں جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا ‘‘ کا اعلان کر کے پاکستانی شہری، سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پاکستان واپس آنے سے کترا رہے ہیں اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ سندھ میں حکومت کر رہے ہیں ۔ سینٹ آف پاکستان میں اُن کی پارٹی کے میاں رضا ربانی چیئرمین ہیں اور کبھی کبھی وہ صدرِ پاکستان کی کرسی پر بھی رونق افروز ہوتے ہیں ۔ اب ہمارے باوردی جرنیل کیا کریں؟ کیا وہ فوج یا رینجرز کا کوئی افسر/ اہلکار دُبئی بھجوائیں؟ پاکستا ن میں کئی فوجداری مقدمات میں مطلوب الطاف حسین کو کون لائے گا؟۔ یہ کیسا آئین ہے کہ اگر کوئی مجرم صدرِ پاکستان منتخب ہو جائے اور سابق بھی ہو جائے ، اُس کا معاملہ روز قیامت پر چھوڑ دِیا جائے؟۔
کینیڈین شہری طاہر اُلقادری ’’ غریبوں کے حق میں انقلاب‘‘ لانے کے لئے پاکستان کے دورے پر آتے رہتے ہیں ۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں القادری صاحب کا کوئی بیٹا، بھانجا اور بھتیجا قتل نہیں ہُوا۔ اُن کے عقیدت مند ’’ شہید‘‘ ہُوئے۔ القادری صاحب کی پاکستان عوامی تحریک کا کوئی بھی رکن قومی / صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہو سکا اور نہ ہی ہوسکتا ہے لیکن اب بھی مہاجروں کے نام پر سیاست کرنے والی الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو ملک کی چوتھی بڑی پارٹی ہے ۔ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ ’’ صدر جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کے کوٹے میں 27 دسمبر 2002ء کو ڈاکٹر عشرت اُلعباد کو گورنر سندھ مقرر کِیا تھا ۔ 13 سال 8 ماہ اور کچھ دِن ہوگئے ہیں صدر آصف زرداری کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے کیا صدراوبامہ کی خاطر یا ملکہ برطانیہ کے لحاظ میں خاموشی اختیار کئے رکھی؟۔ اور ہاں! ڈاکٹر عشرت اُلعباد کے پاس بھی تو برطانیہ کی شہریت ہے؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن