قائد اعظم اور افواج پاکستان
میں جبار مرزا سے اب تک کیوںنہیں ملا اور وہ مجھے کیسے جانتے ہیں۔ پہلے سوال کے دو جواب میرے ذہن میں آتے ہیں، ایک تو یہ کہ شاید ملا ہوں اور مجھے یاد نہ ہو، دوسرا یہ کہ شایدمیں اتنا خوش قسمت واقع نہیں ہوا۔ بہرحال مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی میںکوئی کمی رہ گئی ہے۔
مگر ان کی تصنیف میرے پاس پہنچ گئی۔ ایک شب علامہ عبدالستار عاصم نے فون کیا کہ وہ میرے گھر آنا چاہتے ہیں، اور وہ چلے آئے، ان کے پاس ڈھیر ساری کتابیں تھیں مگر ایک کتاب انہوںنے یہ کہہ کر عطا کی کہ جبار مرزا نے آپ کیلئے بھجوائی ہے، میںنے ذہن پر زور ڈالا، یہ کتاب مجھے کیسے مل گئی۔ ایک اچھوتا موضوع، انتہائی دیدہ زیب گیٹ اپ اور تحقیق کے لحاظ سے تو ا س کا کسی سے مقابلہ ہی نہیں۔
اس عمر میں انسان کتاب پڑھنے کے قابل نہیں رہتا، بس اسے ذہن سے چھوتا ہے، یہ روح میں اتر جاتی ہے، رگ رگ کا حصہ بن جاتی ہے۔مجھے ایک کتاب کوئی دو ماہ پہلے علامہ عبدالستار عاصم نے اور بھی دی تھی، وہ تو آنکھوں کے راستے میرے ایمان کو روشن تر کر گئی، سیرت کے موضوع پر لاکھوںکتابیں ہیں، اور ہر ایک منفرد، ہر ایک دلنشین، ہر ایک بصیرت افروز، اس کتاب کا مطالعہ کروں گا ، پھر ا س کو اپنے عمل کا حصہ بنائوں گا، تب کچھ لکھنے کے قابل ہوں گا۔
تو یہ قائد اعظم اور افواج پاکستان والی کتاب کیسی ہے، میں حیرت میں ڈوب گیا، فوج اور سیاست کے موضوع پر یہ پہلی اور واحد کتاب ہے جس میں فوج پر گند نہیں اچھالا گیا۔یا سیاستدانوں کو گالیوں سے نہیںنواز گیا۔ذکر قائد اعظم کا ہو اور پاک فوج کا ہو تو لازم ہے کہ انسان باوضو ہو کر اس کتاب کے ورق پلٹے، بانی پاکستان کا اپنا ایک مقام ہے اور ایک تار تار، شب گزیدہ سحر والی مملکت کو تحٖفظ فراہم کرنے والی فوج کا اپنا ایک وقار ہے۔
کتاب کے سرورق پر ایک تصویر ہے ، قائد اعظم کرسی پر تشریف رکھتے ہیں۔دو فوجی دائیں بائیں ایستادہ ہیں، نہ قائد کے چہرے پر یہ خوف کہ پتہ نہیں یہ فوجی ان کے ساتھ کیا کر گزریں گے اور نہ فوجیوں کو ذرہ بھر شائبہ کہ قائد ان کے بارے میں کیاریمارکس پاس کریں گے۔ اگلی تصویر میں قائد سیلوٹ کر رہے ہیں ، ان کے دائیںبائیں میجر جنرل محمد اکبرخان رنگروٹ ، نیول چیف ریڈ فورڈ،اور ایئر چیف اکلیدک موجود ہیں، سبھی کے چہرے شانت ہیں، اوراس تصویر ہ میں قائد، پنجاب رجمنٹ کو نیشنل اسٹینڈرڈ عطا کر رہے ہیں۔اور یہ تصویر بہت تاریخی ہے، 15 اگست1947، قائد پہلے گارڈ آف آنر کامعائنہ فرما رہے ہیں۔یہ گارڈ آف آنر پیش کرنے کا اعزاز نمبر 7 بلوچ کو حاصل ہوا۔ اگلی تصویر میں قائد کو حلف برداری کے بعدگارڈا ٓف آنر پیش کیا جا رہا ہے۔کتنے خوش قسمت تھے وہ فوجی جنہوںنے ان تقاریب میں قائدکو سلام کیا اور قائد نے جواب میں ان کو سیلوٹ کیا۔کاش! تاریخ ان بلند نصیبوںکے نام بھی یاد رکھتی۔
آزاد پاکستان کی پہلی عید کا احوال بھی سن لیجئے، 18 اگست کی یہ عید مہاجرین کے خون میںلتھڑی ہوئی تھی ،جنرل اکبر خان نے اپنی یادادشتوں میں لکھا ہے کہ قائد نے سادگی سے عید منانے کا فیصلہ کیا، کراچی کی مرکزی عید گاہ میں انہوں نے یہ نماز مولانا ظہور الحسن درس کی امامت میں ادا کی۔ قائد کی تشریف آوری سے قبل ہم نے پہلی صف میںکچھ لوگوںکو بٹھا دیا تھا جو قائد کے آنے کے بعد وہاں سے ہٹ گئے۔ بس اسکے سوا کوئی خاص تکلف اور اہتمام نہ کیا گیا۔نہ عید ملن پارٹی کی گئی۔ شام کو ملٹری سیکرٹری کے فون پر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، چائے کی پیالی پی اور پھر ہم سب ان علاقوں میں چلے گئے جہاں مہاجرین کی آمدمتوقع تھی۔قائد نے انتظامیہ سے چند سوال کئے اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے پر وہاں کا چارج فوج کے حوالے کر دیا( کراچی میں فوج کی طلبی کا یہ پہلا واقعہ ہے) چند روز بعد مغربی پنجاب کے مہاجرین کے نظم و نسق کی نگرانی بھی فوج کو سونپ دی گئی، اوروزیر اعظم لیاقت علی خان کو ہدائت کی گئی کہ وہ لاہور میں اپنا کیمپ آفس قائم کرلیں۔ لاہور میں فوج کی طرف سے کرنل موسی خان جو بعد میں آرمی چیف بنے، ان امور کو انجام دے رہے تھے۔
جبار مرزا نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے کہ انگریز اور ہندوہر چیز تقسیم کرنے کے لئے تیار تھے مگرپاکستان کو فوج نہیں دینا چاہتے تھے ،قائد نے کہا کہ فوج کے بغیر آزادی نہیںلوں گا، فوج مل تو گئی مگر صرف وردیوں کے ساتھ اور ہاتھ میں صرف ایک رائفل۔قائد کو اس کمی کا احساس ہوا تو انہوں نے ایک تقریب میں کہا کہ دفاع میں اسلحے کی اہمیت نہیں،آپ کے عزم و حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے جو آپ میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
قائد نے فوج کی تربیت کے لئے کاکول اکیڈیمی قائم کی جس میں28 جنوری 1948 کو پہلے کورس کا آغاز ہوا۔اس کی پہلی پاسنگ آٗوٹ پریڈ میں اعزازی شمشیر جیتنے والے راجہ عزیز بھٹی تھے جو جنگ ستمبر پینسٹھ میں بعد از شہادت نشان حیدر کے اعزاز سے نوازے گئے۔ یہ بھی جان لیجئے کہ متحدہ ہندوستان میں ڈیرہ دون اکیڈیمی کے قیام کے لئے بھی قائد کی کاوشیں شامل تھیں ۔اس اکیڈیمی سے موسی خان نکلے، فضل حق نکلے اور جنرل اکبر خان نکلے۔فضل حق نے نصف کورس ڈیرہ دون اور باقی نصف کاکول سے پاس کیا۔
قائد اعظم نے فوج کی ہر ضرورت کی طرف توجہ دی، اسلحہ بنانے کی فیکٹری بھی ا نہوںنے شروع کی، پشاور، رسالپور، کراچی، ڈھاکہ اور دیگر شہروںمیں افواج پاکستان سے خطاب کیا۔
فوج کی بہبود کے لئے بھی قائد نے خصوصی اقدامات کئے، زیارت میں انہوںنے اپنی زندگی کا جو آخری ،سرکاری خط لکھا وہ آرمی چیف جنرل گریسی کے نام تھا۔انہوںنے لکھا کہ میںنے آپ کے خط کی نقل قائد اعظم ریلیف فنڈ کے نائب صدر کو بھیج دی ہے۔اور میںنے تین لاکھ روپے کی امداد کی منظوری دی ہے جو تھل پرو جیکٹ کے مہاجر فوجیوں کی بہبود کے لئے مخصوص ہے۔
کتاب بے حد معلومات افزا ہے، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ نوائے وقت میں سر راہے کے شہرت یافتہ وقار انبالوی بھی فوج کے آئی ایس پی آر میں خدمات انجام دے چکے ہیں،میںنے ان کے ساتھ ایک کمرے میں دس گیارہ برس تک کام کیا، ہر موضوع پر گپیں لگتیںمگر ہم یہ نہ جان سکے کہ وقار انبالوی اصل میںحوالدار ناظم علی ہیں۔پنجاب آئی ایس پی آر کے بریگیڈیئر شاہدعباس کی خواہش ہے کہ فیض احمد فیض کی کوئی ایسی تصویر مل جائے جس میں انہوں نے کرنیل کی وردی پہن رکھی ہو۔
مجھے اس کتاب کو ابھی محدب عدسے کی مدد سے پڑھنا ہے تاکہ میں اس میں قائداعظم کا وہ حکم تلاش کروں جو انہوں نے آرمی چیف کو کشمیر میں بھارتی جارحیت روکنے کے لئے لکھا اور جس پر عمل نہیں کیا گیا۔ مجھے اسی کتاب سے ایوب خان کے بارے میں قائد اعظم کے اس تاثر کو تلاش کرنا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کی سرحد پر غیر قانونی سرگرمیوں میںملوث پائے گئے اور قائد اس پر ناخوش تھے۔ اگر یہ مواد کتاب سے نہ ملا تو میں اپنے ان دیکھے دوست جبار مرزاسے التماس کروں گا کہ وہ اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میںضروری اضافے فرمائیں۔
اگر کوئی صاحب حیثیت اس کتاب کو خرید کر فوج اور سیاستدانوں میں وسیع پیمانے پر تقسیم کرے تاکہ فوج اور سیاستدانوں کے درمیان جو دوریاں ہیں، وہ قائداعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دور کئے جا سکیں۔