• news
  • image

آزاد کشمیر کے نئے صدر کا کھلے بازووں سے خیر مقدم

اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر نظر سے گزری کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے مسعود خان آزاد کشمیر کے صدارتی امیدوار ہوں گے، تصویر دیکھی تو واقعی یہ ایک جانے پہچانے مسعود خان کی تھی۔ میںکشمیری ہوتا تو انہیں ایک حقیقی پاکستانی سمجھ کر ووٹ دیتا اور میرا ووٹ ان کے لئے اب بھی ایک پاکستانی کے طور پر ہے۔ جو مسعود خان آزاد کشمیر کے نئے صدر چنے گئے ہیں ، وہ سیاسی وابستگیوں کے جھنجھٹ سے بالا تر ہیں ، ویسے مجھے یک گونہ خوشی بھی ہوئی کہ مسلم لیگ ن کو بھی اللہ نے توفیق دی کہ وہ جوہر قابل کی قدر کرسکے۔ورنہ وہاں کوئی جھگڑا ہے کوئی امیر مقام۔ ان کی خدمات پارٹی کے لئے ضرور ہوں گی،مگر پاکستان کا مفاد بھی دیکھنا ضروری ہے۔

مسعود خان کو سبھی جانتے ہیں ، وہ کئی عشروں سے میڈیا پر حاوی ہیں، فارن آفس کے ترجمان کی حیثیت سے ان کی زبان کے جوہر کھلے، چین میں سفارت کاری کی تو ایک اور ہی رنگ جمایا، وہ پہلے پاکستانی سفیر تھے جن کی موجودگی محسوس ہوتی تھی، یو این او میں انہوںنے سبز ہلالی پرچم کو سر بلند رکھا۔ اور اب وہ ایک کڑے امتحان سے دوچار ہیں، یہ بات مسعود خان ہی جانتے ہیں کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں بھرا تخت ہے اور آزاد کشمیر کا تخت تو مودی کے حالیہ بیانات کے بعد بارود سے اٹاہوا ہے ، ادھر مقبوضہ کشمیر میں وانی کہ شہادت کے بعد ایک نئی جدو جہد کاا ٓغاز ہوا ہے، وانی نوعمر تھا، ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے مگر اس نے موت کی بازی لگا دی اور امر ہو گیا، وانی نے ثابت کیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں ، اب وانی ہر نوجوان کے دل کی دھڑکن بن گیا ہے، گیلانی جیسے بوڑھوں کو اس نے نئی توانائیوں سے معمور کر دیا ہے۔کشمیری ماﺅں بہنوں کو اس نے ولولوں سے سرشار کر دیا ہے ا ور یقین مانئے اس نے بھارتی فوج کے حوصلے پست کر دیئے ہیں ،اس قدر پست کر دیئے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم بوکھلاکر رہ گیا ہے، وہ سٹپٹا اٹھا ہے۔
اس پس منظر میں مسعود خان کی صدارت کو کئی چیلنج در پیش ہیں۔مگر مجھے ان کی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد ہے۔میں جانتا ہوں کہ وہ ایک جمہوری نظام کے صدر ہیں، مگر دنیا کاکوئی بھی جمہوری اورا ٓئینی سسٹم بولڈ کردار ادا کر نے کے راستے میں دیوار چین نہیںبنتا۔اسی کرسی پر سردار عبدالقیوم خان بھی براجمان رہے مگر کشمیر کے لئے آواز اٹھانے میں انہیں کوئی سسٹم نہیں روک سکا، سردار عبدالقیوم خان کے بعد ایک موقع مسعود خان کو ملا ہے کہ وہ کشمیر کاز کی خدمت میں اپنانام پیدا کریں، وہ پاکستان کے لئے خدمات بجا لاتے رہے مگر پاکستان کی اصل خدمت مسئلہ کشمیر کو قائد اعظم کی امنگوں کی روشنی میں حل کرانا ہے، حل نہیں کر اسکتے تو اسے اجاگر تو کیا جاسکتا ہے، مسعود خان سے بہتر کون جانتا ہے کہ پاکستان کے کس حکمران نے ا ور کس سیاسی جماعت نے کشمیر کو فراموش کئے رکھا، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے سے کیا امن قائم ہو سکا تھا۔مسعود خان کو اس سوال کا جواب بھی عمل سے دینا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف جماعت الدعوہ یا حزب المجاہدین کا نہیں، مسلم لیگ کا بھی ہے، پیپلز پارٹی کا بھی ہے اور تحریک انصاف کا بھی ہے اور تو اور کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا بھی ہے،ا س کے لئے مسعود خان کو سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کر سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ۔
جو بات مسعود خان کے لئے خاص طور پر سوچنے کی ہے ، یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میںکیوں ناکام رہا، اس کا ہاتھ سلامتی کونسل نے مضبوط کیا مگر پاکستان نے پھر بھی سفارتی محاذ پر کمزوری کا مظاہرہ کیا، کشمیریوں نے نوے کے عشرے میںبے مثال جدو جہد کاا ٓغاز کیا مگر پاکستان ایک بار پھر اس جدوجہد کو کیش کرانے میں ناکام رہا۔ آپریشن جبرالٹر کے بطن سے جنگ ستمبر کیسے نکلی، سیاچین میں بھارتی جارحیت کو بھی ہم اجاگر نہ کر سکے اور کارگل ایڈونچر خود ہمارے سسٹم کے گلے کیوں پڑ گیا،ا س نے کشمیر پر بھارت کے جارحانہ قبضے کا گلا کیوںنہ گھونٹا، دنیا بھر میں چھپنے والے روگ آرمی کے اشتہارات پاکستان نے کیسے ہضم کر لئے ۔اور آج سوالوں کا بڑاسوال یہ ہے کہ کیا پچھلے ڈیڑھ ماہ میں کشمیریوں کی قربانیاں ایک بار پھر اکارت جائیں گی۔مسعود خان یہ بھی جانتے ہوں گے کہ بھارت کے پاس کونسے پراپیگنڈہ ٹولز ہیں جن کی مدد سے وہ کشمیر کے لئے ، ہمیشہ پاکستان کو کٹہرے میںکھڑا رکھتا ہے۔ اور مسعود خان اپنی سفارتی صلاحیتوں کی روشنی میں یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ہم کشمیر میں دہشت گردی کے لیبل سے کیسے بچ سکتے ہیں اور اس کے بجائے بھارتی جارحیت کی چیرہ دستی کو نمایاں کیسے کر سکتے ہیں اب جبکہ مودی نے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا تو کیا ا س کے بعد بھی ہم گھگو گھوڑے بنے رہیں گے، ہمارے ہونٹ گنگ رہیں گے،اور ہم بھارت کو مداخلت کار کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہیں کرسکیں گے، یہ وہی صورت حال تو نہیں جب اکہتر میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں کھلی مداخلت ا ور جارحیت کی مگر آج تک وہ ہمیںمشرقی پاکستان کے لئے مجرم قرار دے رہا ہے اور ہم یہ داغ دھونے میں ناکام کیوں ہیں۔اور بات مودی پر نہیں رکتی،ا لطاف حسین تک جاتی ہے جو کھلم کھلا دنیا سے مدد مانگ رہاہے کہ پاکستان کو تباہ کروانا ہے تو اس کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں، مسعود خان اپنے وسیع سفارتی تجربے کی روشنی میں کیا ہمیں یہ تسلی دے سکتے ہیں کہ بھارت، افغانستان اور الطاف کے مذموم عزائم پورے نہیں ہو سکیں گے۔
میں امید رکھتا ہوں کہ مسعود خان اقتدار برائے اقتدار کے نظریئے کے قائل نہیں ہیں، وہ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںاور کرنا بھی چاہتے ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ وہ اپنی بے پایاں ، خداد صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ،کشمیر کے لئے وہ سب کچھ کرگزریں جو اب تک ادھورا پڑاہے ا ور پاکستان کو بھی بیرونی ریشہ دوانیوں سے بچانے میں کامیاب رہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن