پاکستان کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ، ایک سال میں ساڑھے 13 فیصد بڑھ گئے
لاہور (احسن صدیق) موجودہ حکومت نے مالیاتی ذمے داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ 2005کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم جی ڈی پی کے 75.9 فیصد تک کر دیا ہے جو قانون کے مطابق جی ڈی پی کے 60فیصد تک ہونا چاہئے تھا جس سے پاکستان کے ذمے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم جی ڈی پی کے 75.9 فیصد تک پہنچ گیا، صرف ایک سال میں قرضے ساڑھے 13 فیصد بڑھ گئے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات ایک سال کے دوران 26 کھرب 12 ارب 60 کروڑ روپے کے اضافے سے 224 کھرب 59 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ۔ ان میں 214 کھرب 59 ارب 40 کروڑ روپے کے قرضے اور 10 کھرب روپے کے واجبات ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق سال کے دوران قرضوں میں 25 کھرب 55 ارب روپے اور واجبات میں 58 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور قرضے جون 2016ء تک جی ڈی پی کے 75.9 فیصد تک پہنچ گئے جو ایک سال قبل جی ڈی پی کے 68.8 فیصد تھے۔ مرکزی بینک کے مطابق 12 ماہ کے دوران حکومت کے اندرونی قرضے 14 کھرب 31 ارب روپے کے اضافے سے 136 کھرب 23 ارب 20 کروڑ روپے اور آئی ایم ایف کے قرضے سمیت بیرونی قرضے 8 کھرب 63 ارب 20 کروڑ روپے کے اضافے سے 60 کھرب 50 ارب 80 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔ اس دوران حکومتی اداروں اور کارپوریشنوں نے مزید 109 ارب 40 کروڑ روپے کے نئے قرضے لیے اور ان کا حجم 10 کھرب روپے تک پہنچ گیاہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جون میں پاکستان کے ذمے قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 163.38کھرب روپے تھا جو اس وقت 224 کھرب 59 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ قرضوں میں تیز رفتاری سے اضافہ کی اہم وجوہات میں حکومت کا مہنگی شرح سود پر بیرونی قرضہ لینا، امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈکی مد میں کمی ہونا، پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لئے مہنگی شرح سود پر قرضے لینا اور برآمدات میں کمی بیرونی سرمایہ کاری مایوس کن حد تک کم رہنا شامل ہیں۔