• news
  • image

کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے

صدر جنرل ضیاالحق کی برسی پر مجھے کچھ لکھنا تھا۔ وہ شخص مجھے بھولتا نہیں ہے۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کا سب سے بڑا سربراہ تھا۔ وہ ہوتا تو آج پاکستان کی تاریخ اور تقدیر مختلف ہوتی۔ اس کے علاوہ مجھے صدر جنرل ایوب خان یاد آتے ہیں اور میں جنرل راحیل شریف سے بھی محبت رکھتا ہوں۔ زندگی کو ترسنے والے پاکستانیوں نے راحیل شریف کو نجات دہندہ سمجھا ہے ۔
فیصل مسجد اسلام آباد کے سائے میں صدر جنرل ضیاء کے مزار پر لوگ جمع ہوئے۔ کچھ دوستوں کو برادرم اعجازالحق نے بلایا تھا۔ میں ایک معمولی محبت کرنے والا صدر جنرل ضیاء کو پاکستانی تاریخ کا بہت بہادر حکمران سمجھنے والا آدمی ہوں۔ مجھے تو معلوم نہ ہوا کہ ضیاء کے مزار پر کوئی تقریب ہو رہی ہے ورنہ میں خود پہنچ جاتا۔ اتنا بڑا جنازہ میں نے پاکستان میں کسی حکمران کا نہ دیکھا تھا۔ برادرم اعجازالحق کو معلوم ہے کہ اب وہاں ویرانیاں کیوں ہیں؟
نواز شریف نے تب کہا تھا کہ میں صدر جنرل ضیاء کا مشن مکمل کروں گا۔ انہیں پتہ بھی ہے کہ ضیاء کا مشن کیا تھا؟ افسوس تو یہ ہے کہ اعجازالحق کو بھی معلوم نہیں کہ میرے والد کا مشن کیا تھا۔ وہ سجھتے ہیں کہ میں ضیاء کے نام پر ممبر اسمبلی بن گیا اور وزیر بن گیا تو ضیاء کا مشن پورا ہو گیا۔ برادرم چودھری اکرم سے مجھے کوئی شکایت نہیں کہ وہ اعجازالحق کے نام پر دوستوں کو اکھٹا تو کر لیتے ہیں۔
عجیب اتفاق ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق کے نام زیڈ سے شروع ہوتے ہیں اور یہ انگریزی حروف تہجی میں آخری لفظ ہے۔ میں منتظر رہا مگر ضیاء کی برسی کے لیے بلائے جانے والوں میں سے کسی کا کوئی تاثر کسی اخبار میں شائع نہیں ہوا۔ اتنے بڑے جرنیل اور سٹیٹس مین کی برسی گزر جاتی ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ اختلافات کرو ضیاء سے مگر اختلاف کرنے کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ خدا کی قسم ضیاء کا اعتراف اتنا بڑا ہے کہ اختلاف بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ضیاء کا تحفہ ہے۔ وہ ہوتا تو دہشت گردی کا نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ امریکہ کا تحفہ ہے بلکہ صدر بش کا تحفہ ہے۔ آج جمہوریت اور حکومت کو یکجا کرنے والے یکتا ہونے کی خواہش میں مبتلا ہیں۔ بندوں کو گننے والے وہ ہیں جو پیسوں کو گننے والے ہیں۔ بھارت ہمارے کسی حکمران سے خوف زدہ ہوا تو وہ صرف صدر جنرل ضیاالحق تھا۔ مگر عالم اسلام میں کوئی لیڈر پیدا ہوتا تو یورپ اور امریکہ اس سے خوف زدہ کیوں ہو جاتے ہیں۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، صدر جنرل ضیاالحق، شاہ فیصل، کرنل قذافی، صدام حسین، یاسر عرفات لیڈر ہوئے ہیں مشرق اور عالم اسلام میں اور انہیں قتل کرا دیا جاتا ہے۔
شیخ رشید مجھے پسند ہے۔ پسند تو مجھے پرویز رشید بھی ہیں مگر وہ وزیر شذیر ہونے کے کمپلیکس میں ملوث ہیں اس کمپلیکس کا نام خوف زدگی اور بے اعتباری ہے۔ انہیں ابھی تک یقین نہیں کہ وزیر ہیں۔ وہ وزارت یکجا کرنے کے لیے وہ وزیر اطلاعات کم اور ’’وزیر عمرانیات‘‘ زیادہ ہیں۔
پہلے دونوں رشید مجھے Sir کہتے تھے۔ میں جب گارڈن کالج میں پڑھاتا تھا یہ دونوں وہاں پڑھتے تھے۔ سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں شیخ رشید نے پرویز رشید کو شکست فاش دی۔ تو پرویز رشید نے دلبرداشتہ ہوا کہ بھٹو کو چھوڑ دیا اور نواز شریف کا دامن تھام لیا۔
شیخ رشید نے تازہ پیشن گوئی کی ہے وہ ضرور پوری ہو گی۔ شیخ صاحب کی باتیں سیاست و حکومت کی دنیا میں دلیرانہ اور دلچسپ ہوتی ہیں۔ سیاست کے لمحہ موجود میں شیخ رشید سے بڑھ کر زبردست بات کوئی نہیں کرتا۔ اگلے نوے روز میں ایک شریف چلاجائے گا۔ ظاہر ہے وہ جنرل راحیل شریف ہوں گے۔ شیخ صاحب تو چاہتے ہوں گے کہ نواز شریف ہو مگر جنرل صاحب نے بھی اپنے نام کی لاج رکھنا ہے۔ نجانے کیوں نواز شریف اس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد شریفانہ سیاست و حکومت کو جوبن ملے گا۔
شیخ رشید کا یہ جملہ بھی دیکھیں کہ ابھی نواز شریف کے چہرے پر دفعہ 144 لگی ہوئی ہے۔ اس جملے کے لیے میں شیخ رشید کو مبارکباد دیتا ہوں۔ تو اب پرویز رشید کو بھی مبارکباد دینا پڑے گی۔ معذرت کے ساتھ ایک ذاتی بات عرض ہے کہ پرویز رشید نے پی ٹی وی کے لیے میرے پروگرام بند کر دیے ہیں۔ یہ پرویز رشید کی بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ میں نے پی ٹی وی پر تین تین سال تک پروگرام کیے جب ابھی کوئی پرائیویٹ چینل نہ تھا۔ تب پرویز رشید وزیر نہ تھے۔ آج تو کوئی پی ٹی وی دیکھتا ہی نہیں۔ میں انہیں دوبارہ مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
وزیر داخلہ چودھری نثار نے لوگوں کی خاص طور پر افغانوں کی تصدیق کرانے کی مہم شروع کی ہے۔ نواز شریف کے ’’اتحادی حکومتی شریک‘‘ مولانا فضل الرحمن کو غصہ چڑھ گیا ہے اور اپنے لوگوں کے لیے غیرت نے جوش مارا ہے۔ انہوں نے بہت غصے سے کہا ہے ۔ چودھری نثار کون ہوتے ہیں میرے حلقے میں لوگوں کی تصدیق کرنے والے؟ یعنی حضرت مولانا کے حلقے میں ان کے ووٹرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ حضرت مولانا چودھری نثار کے لیے نواز شریف سے پوچھیں۔ انہوں نے حضرت مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا ہے اور چودھری نثار کو وزیر داخلہ بنایا ہے۔ کبھی نواز شریف چودھری صاحب کے لیے اس طرح بات نہیں کر سکتے۔ حضرت مولانا کر سکتے ہیں۔ میری گذارش حضرت مولانا سے ہے کہ یہ چودھری نثار ہیں۔ نواز شریف نہیں ہیں؟ وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ذرا بھارتی وزیراعظم مودی سے کہیں کہ میرے کشمیر میں تمہاری افواج جو کچھ کر رہی ہیں۔ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔
چودھری شجاعت کہتے ہیں کہ نواز شریف نے الطاف حسین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے۔ چودھری صاحب کا مطالبہ یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ چودھری صاحب پہلے الطاف حسین کے خلاف تو آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلا لیں۔ پھر صدر جنرل مشرف کے خلاف چلائیں اور پھر باری نواز شریف کی آئے گی مگر اپوزیشن کی اپنی پوزیشن ہوتی ہے؟
کتاب کے لیے ایک محفل میں افتخار مجاز نے یہ جملہ کہا کہ جس ملک میں کتابیں فٹ پاتھ پر اور جوتیاں الماریوں میںفروخت ہوتی ہیں کیا وہ معاشرہ اس قابل ہے کہ وہاں رہا جائے؟
عہد جدید کے نامور شاعر عباس تابش کا شعر سنیں۔ کشمیر یاد آئے، فلسطین یاد آئے تو شہیدوں کے قبرستان پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
عجیب لوگ ہیں خاندان عشق کے لوگ
کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے
اپنے جسموں کو لاشوں میں تبدیل کرنے والے نہیں تھکتے مگر ہم لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے تھک گئے ہیں۔
بہت معروف افسانہ نگار سیما پرویز کے افسانوں کا مجموعہ ’’طوفان کے بعد‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس بار لکھی جانے والی کتاب میں پندرہ افسانے شامل ہیں۔ انتساب اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے نام ہے۔ اچھا افسانہ لکھنے والے لوگ کم کم رہ گئے ہیں۔ اس کتاب کے حوالے سے افسانے کے ساتھ پیار کرنے والوں کا حوصلہ بڑھے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن